صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دیوانِ بیان میرٹھی
تدوین
ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
دل اچکے گی کہ بکھری ہے اڑی ہے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
چھپے گا کب ہمارا خونِ ناحق
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کہیں بادِ صبا آگے نہ دھر لے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
عدو اس ریسماں سے سر نہ چڑھ جائے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کمند اس گھات سے پھینکی ہے کس پر
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کسی کا خونِ ناحق سر نہ ہو جائے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
جفائیں مو بمو آتی ہیں آگے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کہیں موئے میاں بل کھا نہ جائے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
اڑایا دل گرہ کترے گی کیا اور
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
غضب تھا سامنا تُرکِ نظر کا
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کسی کا خون گردن پر نہ چڑھ جائے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
بیاں کم تھی ہماری تیرہ بختی
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
***
کسی خورشید قیامت نے نظر کی ہوتی
یوں گر اٹھ اٹھ کے قیامت نے سحر کی ہوتی
اس نے نیچے سے جو اوپر کو نظر کی ہوتی
تو صفِ حشر ابھی زیر و زبر کی ہوتی
جیت کیا جانے دمِ ذبح کدھر کی ہوتی
نگہِ یاس سے گر تیغِ نظر کی ہوتی
گر لگاتے نہ گلے سے تری تلوار کو ہم
تو کسی گھاٹ کی ہوتی نہ یہ گھر کی ہوتی
حسرتِ وصل ہوئی خاک تو کیا خاک ہوئے
خاک ہوتی تو تری راہ گزر کی ہوتی
اے فلک گردشِ ایام کا رونا کیا تھا
وصل کی رات بھی گر چار پہر کی ہوتی
لو کسی شوخ سے در پردہ لگا رکھی ہے
ورنہ کیوں شمع نے رو رو کے سحر کی ہوتی
اڑ کے جاتا ترے ہاتھوں سے کہاں رنگِ حنا
اس میں اک بوند اگر خونِ جگر کی ہوتی
ہے نہاں پردۂ ہستی میں کوئی مایۂ حسن
ورنہ پھیری، نہ ادھر شمس و قمر کی ہوتی
جائے زر گر، درۂ یار کے ذرے ملتے
گر کہیں جامہ تلاشی، گلِ تر کی ہوتی
یہ تن و توش، یہ دن سن، یہ نزاکت، یہ جھجھک
سر مہم آپ سے کیوں کر مرے سر کی ہوتی
جانے دیتے نہیں جنت میں گنہگاروں کو
اے بیاں شافعِ محشر کو خبر کی ہوتی
***
صرفِ فشار کینہ کنارِ بتاں ہے اب
میرے لیے تمام زمیں آسماں ہے اب
ذکرِ خدا بجائے خیالِ بتاں ہے اب
ہوتی ہمارے کعبۂ دل میں اذاں ہے اب
ظالم کو میری آہ نے دنیا سے کھو دیا
کہتے ہیں منتہائے نظر آسماں ہے اب
آج ان کو دیکھنا ہے تماشائے جاں دہی
بادِ صبا بتا مری مٹی کہاں ہے اب
قائل یہاں نہیں کوئی ان کے وجود کا
میں ہوں جہاں عدم میں وہی آسماں ہے اب
اس بت کے دل میں گردِ کدورت تھی اے بیاں
برباد کر گئی مجھے، ظالم کہاں ہے اب
٭٭٭٭٭٭٭