صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دیوانِ بیان میرٹھی (مکمل)
تدوین
ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
بیان میرٹھی
شاعری کی ابتدا
بیان نے جس خاندان میں آنکھیں کھولی تھیں، وہ خالص ادبی ،علمی اور شعری تھا۔اسی فضا میں ان کی ذہنی نشو و نما ہوئی جس کے باعث ان کو شاعری کا شوق ابتدائے سنِ شعور ہی میں ہو گیا تھا۔ مزاج بھی شاعرانہ تھا، لہٰذا ابتدائی کتب درسیہ کی تکمیل کے بعد کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیے بغیر شعر کہنا شروع کیا۔دہلی میں سید احمد حسن فرقانی میرٹھی سے ان کا براہِ راست رابطہ قائم ہوا۔ ان کی ادبی محفلوں کو دیکھنے اور ان میں شریک ہونے کا موقع ملا۔اسی ماحول نے ان کے ذوقِ شعری کو بے انتہا تقویت پہنچائی۔ بیان صحیح معنوں میں تلمیذ الرحمن تھے اور فہیم و ذکی بھی، بہت جلد اس فن میں مہارت حاصل کر لی اور اپنے ذاتی جوہر، علمی قابلیت اور مشقِ سخن سے خود کمال حاصل کر لیا۔ امان اللہ خان شیروانی اپنے مضمون میں صغیر اصغر کے مضمون:غالب اور جعفر علی (مطبوعہ ماہنامہ ماہ نو کراچی، مطابق ۱۹۶۵ء) کے حوالے سے بیان کی شاعری کے ابتدائی دور کے متعلق یہ واقعہ بھی لکھتے ہیں: (۱۹)
’’بیان کسی کے شاگرد نہیں تھے۔ وہ تو فطری شاعر تھے۔وہ بہت جلد مشہور ہو گئے اور صرف ۱۴ سال کی عمر میں ہی انھوں نے اردو زبان اور اردو شاعری میں اتنا عبور حاصل کر لیا تھا کہ بڑے بڑے اساتذہ کو بھی تعجب ہوتا تھا۔ ایک روز مرزا غالب کی زمین میں ایک غزل لکھی۔ غالب کا مطلع ہے:
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسہ کو پوچھتا ہوں میں منھ سے مجھے بتا کہ یوں
بیان کی غزل کے چند اشعار یوں ہیں:
صبحِ قیامت آئیگی کوئی نہ کہہ سکا کہ یوں
آئے وہ در سے ناگہاں کھولے ہوئے قبا کہ یوں
نرگسِ مہوشاں سے پوچھ ، گردشِ آسماں سے پوچھ
سرمہ ہوئے وفا سرشت کیا کہوں اے خدا کہ یوں
ریختہ رشکِ فارسی اس سے نہ ہو سکا بیاں
محفلِ عرسِ میر میں شعر مرے سنا کہ یوں
یہ غزل وہ مرزا غالب کی خدمت میں لے گئے اور اصلاح کی درخواست کی۔ غالب نے غزل پڑھ کر واپس کر دی اور فرمایا:’’میاں میں کیا اصلاح دوں جیسا میں نے کہا ویسا ہی تم نے کہہ دیا۔‘‘
جس زمانے میں بیان دہلی میں تھے ان کی حیثیت فرقانی کے خاندان کے ایک فرد کی تھی۔ انھوں نے انھی ایام میں یقیناً غالب کو دیکھا ہو گا جن کی آمد و رفت فرقانی کے گھر تھی۔ بیان نے غالب کی خدمت میں کسی موقع پر یقیناً وہ غزل پیش کی ہو گی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
جب ۱۸۶۸ء میں سید کفایت علی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو یہ خاندان میرٹھ میں مستقل آباد ہو گیا۔ ان کے ساتھ بیان بھی میرٹھ آئے اور اس شہر میں مستقل سکونت اختیار کی۔اس وقت میرٹھ کی فضا شعر و ادب کی کیفیتوں سے معمور تھی۔ جگہ جگہ شعر و شاعری کے تذکرے تھے اور مشاعرے بھی کثرت سے ہوتے تھے۔ بیان کی شاعری کی نشو و نما میرٹھ کے جس ادبی اور علمی ماحول میں ہوئی تھی، اس پر ڈاکٹر سید صفدر حسین نے قندیلِ حرم کے دیباچہ میں سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں:(۲۰)
’’گھرکے ماحول کے علاوہ شہر کی علمی اور ادبی فضائیں تھیں جن میں بیان کے ادبی مذاق کی نشوونما ہوئی۔ میرٹھ شہر سے دلی محض چالیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اس لیے یہاں کی ادبی سرگرمیوں میں دبستانِ دہلی کے عناصر بہت قوی تھے۔ علاوہ ازیں خود میرٹھ ہی کی سرزمین سے مولانا امام بخش صہبائی جیسے جید عالم پیدا ہوئے تھے جنھوں نے دلی کی علمی، ادبی اور مذہبی فضا میں اپنا نمایاں مقام پیدا کر لیا تھا۔ میرٹھ میں انھیں کے ایک شاگرد مرزا رحیم بیگ رحیم بھی موجود تھے، جنھوں نے مرزا غالب کی علمی و ادبی مخالفت میں ’’قاطعِ برہان‘‘ تصنیف کی تھی۔ غالب کے ایک مخلص دوست ممتاز علی خان اور دو مخصوص شاگرد یعنی محبوب علی خان نیّر اور فصیح الدین رنج اسی شہر کے رہنے والے تھے۔ غالب کے علاوہ حکیم مومن خان مومن کے بعض شاگرد مثلاً نواب مصطفی خان شیفتہ اور مولا بخش قلق وغیرہ یہیں کے باشندے تھے۔ پھر بیان کے معاصرین میں مولانا شوکت میرٹھی، اسمٰعیل میرٹھی اور سید سجاد حسین ریحانی تھے۔ مختصر یہ کہ بیان کے ادبی شعور نے ایسے علمی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ پھر انھوں نے اپنے ذاتی ذوق، علمی مطالعے اور اد بی صحبتوں سے وہ بصیرت حاصل کر لی تھی کہ اپنے ہم عصروں میں وہ مذہب و ملت، شعر و ادب، سیاست و حکمت و تہذیب اور معاشرت کے ایک مبصر خیال کیے جاتے تھے۔ علمی قابلیت، ہمہ دانی، قادرالکلامی، زود گوئی، حاضر جوابی اور شوخیِ طبع میں بھی اپنے معاصرین میں ان کا جواب نہ تھا۔‘‘
یہاں یہ بتا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کسی تذکرہ نگار نے بیان کو فرقانی میرٹھی کا شاگرد لکھا ہے تو کسی نے اس کی تردید کی ہے اور انھیں تلمیذ الرحمن بتایا ہے گویا وہ کسی کے شاگرد نہیں تھے۔ اس سلسلے میں پیارے لال شاکر میرٹھی نے اپنے مضمون میں بیان کے چھوٹے بھائی سید حسین شرف کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے:(۲۱)
’’برادر مرحوم حقیقت میں کسی کے شاگرد نہ تھے۔ میر احمد حسن فرقانی ان کے ماموں تھے۔ برادر مرحوم ان کی تعظیم کرتے تھے اور اس لیے ان کو اپنا استاد بھی لکھ دیتے تھے۔ ورنہ حقیقت میں انھوں نے ان کو ایک شعر بھی بنظرِ اصلاح نہیں دکھلایا بلکہ بحیثیتِ شاعرانہ ان میں اکثر مباحثہ بھی ہو جاتا تھا۔‘‘
لیکن ان سب کے باوجود یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بیان کی تربیت اور ان کے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں فرقانی کا زبردست حصہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ان کی بے انتہا عزت کرتے تھے۔ ان سے انھیں دلی عقیدت و محبت تھی۔ اس کا ثبوت وہ طویل مرثیہ ہے جو انھوں نے فرقانی کی وفات سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔ تین بند کے یہ چند منتخب اشعار دیکھئے:(۲۲)
صیرفیِ نقدِ ہمامی تھے وہ
صیلقیِ نظمِ نظامی تھے وہ
پشتِ ظہوری و پناہِ ظہیر
شیخِ مصلّائے امامی تھے وہ
نام تھا اربابِ ہنر میں بلند
نامورِ شیوۂ نامی تھے وہ
مدِّ نظر تھا قدما کا کلام
کہنہ خیالات کے حامی تھے وہ
فرقتِ قرقانی و شاکی دریغ
رحلتِ فرقانی و شاکی دریغ
نطق میں تھی قند مکرر بھری
قند مکرر سے بھی نیکو تری
مرغِ زباں تھا چمنِ نظم میں
بلبلِ بستانِ زباں آور ی
زندہ ہوئی مردہ زبانِ عجم
تھی لبِ اعجاز میں جادوگری
شعر میں ہر نکتۂ باریک تھا
طرۂ طغرائے سخن پروری
فرقتِ قرقانی و شاکی دریغ
رحلتِ فرقانی و شاکی دریغ
ہیں ترے ہم چشم کہاں اے بیاں
ڈھونڈتی ہے چشمِ جہاں اے بیاں
ڈال دیا مرگ نے اردو میں غدر
لٹ گئی دلی کی زباں اے بیاں
چھوڑ گیا راکھ کی صورت مجھے
قافلۂ راہ رواں اے بیاں
کیجیے کس کس کا بیاں بس خموش
روئیے کس کس کو یہاں اے بیاں
فرقتِ فرقانی و شاکی دریغ
رحلتِ فرقانی و شاکی دریغ
جلوۂ طور کی ادارت
میرٹھ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد بیان نے جلوۂ طور کی ادارت سنبھالی۔یہ سلسلہ تقریباً پانچ چھ سال تک جاری رہا۔جلوۂ طور ۱۸۶۱ء میں محلہ گنیش گنج، میرٹھ سے جاری ہوا تھا۔ جمعہ کے روز شائع ہوتا تھا۔ اس کے مہتمم و مالک راۓ گنیشی لال اور پرنٹر و پبلشر شمبھو ناتھ تھے۔ اس کا سالانہ چندہ ساڑھے نو روپئے تھا۔ سلطان المطابع میرٹھ میں بڑی تقطیع پر چھپتا تھا۔جلوۂ طور کے ایڈیٹر کچھ عرصہ تک سید ظہیر الدین ظہیر بھی رہے۔ اسی طرح بعد میں اس کے مہتمم لالہ خوشی رام غالب ہو گئے تھے۔بیان نے اپنے دور میں جلوۂ طور کے لیے جو مضامین لکھے تھے وہ بڑے بصیرت افروز ہیں۔(۲۳)
کال کوٹھری
جلوۂ طور سے علاحدگی کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیان پر وہ مجنونانہ کیفیت طاری ہوئی جس کا وہ کم و بیش تا عمر شکار رہے۔بعض تذکرہ نگار کہتے ہیں کہ اوائلِ عمر میں ان کے والد انھیں شعر و سخن میں اوقات گزاری سے منع فرماتے تھے لہٰذا انھوں نے بہانا کیا کہ مجھ کو روشنی میں چکا چوند لگتی ہے اور یوں گھرکے ایک اندھیرے کمرے میں بند رہ کر اپنا شوق پورا کرنے لگے۔ بعض کا خیال ہے کہ انھوں نے جو الفاظ زبان سے نکالے تھے، آخر وہی ہو کر رہا اور وہ واقعی عارضۂ چکا چوند کا شکار ہو گئے۔ بعض اسے وہم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ حکیم محمود خاں کا خیال تھا کہ یہ مرض ذہین لوگوں کو ہوا کرتا ہے۔ اس مرض کے سلسلے میں بیان کے چھوٹے بھائی سید حسین شرف نے پیارے لال شاکر میرٹھی کو یہ تفصیل بتائی ہے:(۲۴)
’’حالت مرض یہ تھی کہ قریب دو سیر وزن کی کپڑے کی گٹھری بنا کر دماغ پر رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ دماغ بغیر اس کے اڑا جاتا ہے۔ تاریک کمرے میں شب و روز رہتے تھے۔ اس کے دروازوں پر پنبئی پردے پڑے رہتے کہ روشنی مطلق نہ آ سکے۔ ہانڈی کے پکنے اور چھالیہ کاٹنے کی آواز بھی ناقابلِ برداشت تکلیف دیتی تھی۔ نہایت خفیف شور سے بھی وہ سخت پریشان ہو جاتے تھے۔ اگر کسی ضرورت سے باہر نکلتے تو چھتری لگا کر۔ کہتے تھے کہ تاروں کی روشنی سے اذیت پہنچتی ہے اور تارے دماغ میں چبھتے ہیں۔ اس مرض میں وہ تمام عمر مبتلا رہے۔ شور سے اب مطلق پریشان نہ ہوتے تھے۔ مکانِ تاریک کی نشست ترک کر دی تھی۔ کپڑوں کی گٹھری سر سے کندھوں پر اتر آئی تھی۔‘‘
ان کے متعلق یہ بات بھی مشہور ہے کہ انھیں یہ وہم ہو گیا تھا کہ اگر وہ باہر نکلیں گے تو پریاں اٹھا کر لے جائیں گی۔(۲۵) انھیں صفائی کا مطلق خیال نہ تھا۔ ہمیشہ ایک لحاف اوڑھے رہتے اور پلنگ پرہی نہا لیا کرتے تھے۔بیان کے خطوط میں بھی ان کی مسلسل بیماری، جسمانی ضعف اور ذہنی پریشانیوں کے اشارے ملتے ہیں۔وہ اپنے ماموں سید مہدی علی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’میں بھائی کی طرف ایک دری کی کوٹھی میں رہتا ہوں۔ تعدادِ مکانات سببِ حسرت نہیں۔ کیوں کہ:
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے گماں یاں رہ گیا، واں رہ گیا
(تیغ ہندی،ص:۵)
میر حیدر علی کو ایک خط میں اپنی کیفیت اس طرح بتاتے ہیں:
’’اب آپ اپنے عجیب الخلقت دوست کا بھی حال سنیں۔ بیمار ہیں، بیکار ہیں، دنیا سے بیزار ہیں، ہمہ تن زار ہیں، بلکہ آزار ہیں، زحمتِ امراض سے ناچار ہیں، رحمتِ الٰہی کے طلب گار ہیں۔ بیٹھتے ہیں گھرکی طرح، اٹھتے ہیں چھپر کی طرح۔ چلتے ہیں جنازے کی طرح۔ خدا عفو و عافیت دے۔‘‘(تیغ ہندی،ص:۶۱)
مولوی ظفر احمد کو خط کا جواب نہ لکھنے کی شکایت کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’جب تمہارا خط آیا تھا، میں تپ و لرزہ میں مبتلا تھا اور اس بلا کا تپ و لرزہ تھا، گویا زمین کو پہنچا آیا تھا۔ کئی دن بے ہوش رہا۔ بعض کو حیات میں تردد رہا اور مجھ کو تو اب بھی ہے۔‘‘(تیغ ہندی،ص:۹۴)
مولوی ظفر احمد کو ایک اور خط میں پھر خط نہ لکھنے کی شکایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر میں بے نصیب ہو گیا، تم تو خوش نصیب ہو۔اگر میں ذلیل ہو گیا، تم تو ہنوز عزیز ہو۔ صاحبِ تمیز ہو۔ اگر مجھ میں علالت سے حالت نہیں، تمہاری حالت کہاں گئی باوجودیکہ علالت نہیں۔ اگر ہمارا حال ردّی ہے، تمہاری نیت میں کیوں بدی ہے۔ ہم بے دست و پا ہو کر چل نہیں سکتے کہ تم تک جاتے، تم ہاتھ پیر والے ایسے نکلے کہ ہم تک نہیں آتے۔‘‘(تیغ ہندی، ص:۱۰۳)
انھیں مولوی ظفر احمد کو کیفیت دریافت کرنے پر ایک دوسرے خط میں پھر لکھتے ہیں:
’’شفا کہاں۔ مرض بڑھتا رہا جوں جوں دوا کی۔ بیمار چلا جاتا ہوں۔ غلط کہتا ہوں۔ اب اس قدر ضعف ہے کہ چلا نہیں جاتا۔ لیکن
چلا ہی جاتا ہوں میں، گو چلا نہیں جاتا
غضب ہے شوقِ رسائی و دوریِ منزل
پہلے پڑا تھا مگر بھلا تھا۔ اب اچھا نہیں، اچھا نہیں۔۔۔ پلنگ پر پڑا، کبھی ہوش ہے، کبھی بے ہوش ہوں۔ آسمان دیکھتا ہوں اور خاموش ہوں۔‘‘(تیغ ہندی، ص:۹۵)
غرض کہ بیان پھر اس کوٹھری سے باہر نہیں نکلے اور عنفوانِ شباب سے آخر عمر تک وہیں گوشہ نشین رہے۔اس کال کوٹھری میں بیٹھے بیٹھے بیان شاعری اور علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ یہیں ہمہ وقت شاگردوں کا مجمع رہتا۔ ان کی غزلوں پر اصلاح دی جاتی۔ شعر و شاعری پر بحث ہوتی۔ اخباروں کے لیے مضامین لکھے جاتے۔ مخالفوں کے جواب تحریر ہوتے۔ شاعری کے گلدستوں کی آرائش کی جاتی اور اخبارات و رسائل کی ترتیب و تدوین کا کام ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اندھیری کوٹھری ادبی اعتبار سے ایک ایسی زر خیز جگہ تھی، جس میں ہمیشہ رنگ برنگ پھول کھلتے رہتے تھے، جو اپنی بو قلمونی، رنگا رنگی اور شادابی سے آج تک حلقۂ ادب کو پُر بہار بنائے ہوئے ہیں۔
اس سچائی کی تصدیق سر عبد القادر ایڈیٹر ماہنامہ مخزن، لاہور کے مندرجہ ذیل بیان سے بھی ہوتی ہے جنھوں نے بیان کو قریب سے دیکھا تھا۔ وہ اپنے مضمون یادِ رفتگاں میں لکھتے ہیں:(۲۶)
’’جب جلسہ (کل ہند محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، میرٹھ،۱۸۹۶ء) ختم ہو لیا اور لوگ منتشر ہو گئے اور جو کچھ باقی تھے میرٹھ سے روانگی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اس وقت میں اپنے خیمے سے نکلا اور سر سید کے خیمہ کی طرف جانے لگا کہ ان سے رخصت ہولوں کہ اتنے میں میری نظر ایک پالکی پر پڑی جس میں ایک بزرگ روئی دارا نگر کھا پہنے ہوئے لیٹے ہوئے تھے۔ میں اس پالکی کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت بیان یزدانی ہیں۔ چند سال پہلے ایک دفعہ ان سے ملاقات کا موقع ہوا تھا۔ مرحوم ایک عرصہ سے علیل اور صاحبِ فراش تھے۔ جب میں نے انھیں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ جب بھی ایک چھوٹے سے اندھیرے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ مگر یہ معذوری ان کی طبیعت کی روانی پر غالب نہیں آئی تھی اور وہ اسی حالت میں دادِ سخنوری دیتے رہے۔ شاگردوں کی غزلوں کی اصلاح کرتے تھے اور دیگر علمی مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔‘‘
٭٭٭٭٭٭٭
غزلیں
کسی خورشید قیامت نے نظر کی ہوتی
یوں گر اٹھ اٹھ کے قیامت نے سحر کی ہوتی
اس نے نیچے سے جو اوپر کو نظر کی ہوتی
تو صفِ حشر ابھی زیر و زبر کی ہوتی
جیت کیا جانے دمِ ذبح کدھر کی ہوتی
نگہِ یاس سے گر تیغِ نظر کی ہوتی
گر لگاتے نہ گلے سے تری تلوار کو ہم
تو کسی گھاٹ کی ہوتی نہ یہ گھر کی ہوتی
حسرتِ وصل ہوئی خاک تو کیا خاک ہوئے
خاک ہوتی تو تری راہ گزر کی ہوتی
اے فلک گردشِ ایام کا رونا کیا تھا
وصل کی رات بھی گر چار پہر کی ہوتی
لو کسی شوخ سے در پردہ لگا رکھی ہے
ورنہ کیوں شمع نے رو رو کے سحر کی ہوتی
اڑ کے جاتا ترے ہاتھوں سے کہاں رنگِ حنا
اس میں اک بوند اگر خونِ جگر کی ہوتی
ہے نہاں پردۂ ہستی میں کوئی مایۂ حسن
ورنہ پھیری، نہ ادھر شمس و قمر کی ہوتی
جائے زر گر، درۂ یار کے ذرے ملتے
گر کہیں جامہ تلاشی، گلِ تر کی ہوتی
یہ تن و توش، یہ دن سن، یہ نزاکت، یہ جھجھک
سر مہم آپ سے کیوں کر مرے سر کی ہوتی
جانے دیتے نہیں جنت میں گنہگاروں کو
اے بیاں شافعِ محشر کو خبر کی ہوتی
***
صرفِ فشار کینہ کنارِ بتاں ہے اب
میرے لیے تمام زمیں آسماں ہے اب
ذکرِ خدا بجائے خیالِ بتاں ہے اب
ہوتی ہمارے کعبۂ دل میں اذاں ہے اب
ظالم کو میری آہ نے دنیا سے کھو دیا
کہتے ہیں منتہائے نظر آسماں ہے اب
آج ان کو دیکھنا ہے تماشائے جاں دہی
بادِ صبا بتا مری مٹی کہاں ہے اب
قائل یہاں نہیں کوئی ان کے وجود کا
میں ہوں جہاں عدم میں وہی آسماں ہے اب
اس بت کے دل میں گردِ کدورت تھی اے بیاں
برباد کر گئی مجھے، ظالم کہاں ہے اب
٭٭٭٭٭٭٭