صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
باتوں باتوں میں
ڈاکٹر سلیم خان
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
فون کی گھنٹی بول رہی تھی یہ انٹن کا فون ہے۔ شمیم نے ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھایا اور دوسری جانب ہشاش بشاش پُر جوش انٹن تھا۔حسب معمول ’’کیا حال ہے؟ سب ٹھیک ٹھاک۔ آنے کی تیاریاں مکمل ہو گئیں ؟‘‘ شمیم نے پوچھا۔ ’’میں نے تو تیاریاں پوری کر لیں لیکن یہ انشورنس والے‘‘
’’کیوں ان کو کیا پریشانی ہے؟‘‘
’’ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے حالات موافق نہیں ہیں۔ ‘‘
’’بھئی ایک بات بتاؤ کینڈا کے بارے میں آپ بہتر جانتے ہو یا سعودی عرب میں بیٹھے ہوئے انشورنس ایجنٹ۔‘‘
’’مذاق کرتے ہو شمیم کینڈا کے بارے میں مجھ سے بہتر کون واقف ہو گا۔‘‘
’’اب اگر میرا ایجنٹ مجھے منع کرے تو تم کیا کہو گے یہی نا کہ پاگل ہے۔ تو بس میں بھی وہی کہوں گا جو تم کہو گے۔‘‘
’’لیکن شمیم ایک بات بتاؤ آخر تمہارے انشورنس والوں کے خیالات ہمیشہ مختلف کیوں ہوتے ہیں ؟‘‘
’’بات دراصل یہ ہے کہ ہم دونوں کاروباری لوگ ہیں انہیں اپنے کاروبار میں دلچسپی ہے اور مجھے اپنے کاروبار میں اور چونکہ ہمارا کاروبار مختلف ہے اس لیے ہماری رائے بھی مختلف ہو جاتی ہے۔‘‘
’’لیکن دوست اتنا یاد رکھو کہ تم بھی کاروباری آدمی ہو تمہارا اور ہمارا کاروبار یکساں ہے اس لیے تمہیں انشورنس کمپنی کے بجائے مجھے سے اتفاق کرنا چاہئے۔‘‘
’’شاید تم ٹھیک کہتے ہو لیکن پھر بھی میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر یہ انشورنس والے ہمیشہ ڈراتے کیوں ہیں ؟‘‘
’’ارے بھائی انشورنس کا پورا کاروبار ڈر اور اندیشہ پر منحصر ہے۔ اگر آپ کو نقصان کا ڈر ہے تو انشورنس کرا لیجئے۔ مرنے کا خوف ہے تو انشورنس کرا لیجئے۔ جب یہ ڈر ختم ہو جائے گا بیمہ کا دھندہ اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ لیکن جہاں واقعی خوف اور اندیشہ شدید ہوتا ہے وہاں تو یہ لوگ اپنا کاروبار ہی نہیں کرتے۔‘‘
’’تم نے صحیح کہا۔ یہ دراصل لوگوں کو خوف و اندیشہ سے نکالنے یا ان کے تعاون کرنے کے دھندے میں نہیں ہیں بلکہ جہاں امن و امان ہو وہاں لوگوں کو مصنوعی اندیشوں میں گرفتار کر کے ان سے روپیہ کمانے کا کاروبار کرتے ہیں۔ یہ تم سے کمانا تو چاہتے ہیں تم پر خرچ کرنا نہیں چاہتے۔ اس لیے جہاں خرچ کا واقعی اندیشہ ہے وہاں جانے سے روکتے ہیں۔ ‘‘
انٹن نے تھوڑے سے توقف کے بعد کہا۔ ’’پھر تو انہیں کی بات صحیح ہو گئی کہ سعودی عرب کے حالات ٹھیک ٹھاک نہیں ہیں۔ ‘‘
شمیم نے نفی کی۔ ’’ایک تو یہ ان کا اندیشہ ہے اور اندیشے اکثر باطل ہوتے ہیں۔ دوسرے ان کا مشورہ ان کے اپنے فائدے اور نقصان کے پیش نظر ہے اور تمہیں ان کا نہیں اپنا کاروبار بڑھانا ہے۔‘‘
٭٭٭