صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


حرفِ باریاب

غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کا  تنقیدی مطالعہ
عشرت ظفر

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                            ٹیکسٹ فائل

معاصر جدید غزل گویوں میں راہی کا مقام


    معاصر جدید غزل کم و بیش پچاس سال کے  عرصے  پر محیط ہے  اور اس افق پر جن ناموں کی درخشانی و ضیا باری ہے  ان میں سے  کئی اب اس جہانِ فانی سے  رخصت ہو چکے  ہیں  لیکن پچاس سال کا عرصہ یعنی نصف صدی کچھ زیادہ نہیں ہوتی اس لئے  ابھی بہت سے  عرصۂ حیات میں  متحرک اور کامراں بھی ہیں  اور وہ جدید غزل کی بساط پر اپنے  منفرد خدوخال سے  پہچانے  جاتے  ہیں اور ان کے  بغیر جدید غزل کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی اگرچہ بانی زیب غوری مصورسبزواری نشتر خانقاہی عرفان صدیقی جیسے  اہم ترین غزل گو آج موجود نہیں ہیں  لیکن سلطان اختر، شہریار، مدحت الاختر، کرشن کمار طور، غلام مرتضیٰ راہی، مظفر حنفی اور پرکاش فکری جیسے  شہسوارموجودہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جونئی غزل کے  ہراول دستے  میں  تھے۔ بعد میں  اور لوگ بھی آئے  اور کارواں بنتا گیا۔ جدید غزل کا منظرنامہ جیساکہ میں  نے  عرض کیا کہ کم و بیش پچاس برسوں  پر محیط تھا اس کو دو حصوں میں  تقسیم کیا جا سکتا ہے  اور پوری طرح سے  دونسلیں  نظر آتی ہیں۔ پہلی نسل کے  بنیاد گزاروں کا  ذکر سطور بالا میں  ہو چکا  ہے  بعد کی نسل میں  اسعدبدایونی، خورشید عالم، یاور وارثی، اسلم محمود، مصطفے ٰ فرازجیسے  اہم ترین نام ہیں  جن میں  سے  بیشتر ماہنامہ شب خون الہ آباد کے  توسط سے  ہی  نمودار ہوئے  اور پہچانے  گئے۔

    ترقی پسندیت تو پہلے  ہی اپنی نعرہ بازی کی وجہ سے  زوال پذیر ہو چکی تھی۔ جدیدیت کی حریف بن کر ما بعد جدیدیت ابھری، ہزاروں  اتہام جدیدیت پر لگاتی ہوئی کہ اس میں ترسیل کا  المیہ ہے، کہانی میں  کہانی پن نہیں ہے  لیکن کسی کا نعرہ بھی مؤثر نہیں ہوا۔ جدیدیت خود اپنا احتساب کرتی رہی اور بیسویں صدی کے  آخری دنوں میں  جو مناظر سامنے  آئے  جسے  یار لوگوں نے  ما بعد جدیدیت کا نام دیا دراصل وہ جدیدیت ہی تھی جس کی تنقیح و تطہیر کا کام مسلسل جاری تھا شروع میں  ہی کہہ دیا گیا تھا کہ جدیدیت ایک نئے  رنگ میں  علامتی ابعاد کے  ساتھ واپس آئے  گی سو وہی ہوا، جدید شاعری سے  متعلق شمس الرحمن فاروقی کی یہ رائے  قابل ملاحظہ ہے :

    ’’جدید شاعری نے  شاعری یا فن پارے  کے  خود مکتفی اور خود مختار ہونے  کا  دعویٰ کیا اس معنی میں  کہ فن پارہ بنانے  والی وہ چیزیں  ہیں  جواس کے  اندر ہی کوئی خارجی حوالہ چاہے  وہ نظریے  کا  ہو چاہے  سیاسی عقیدے  کا کسی تحریر کو فن پارہ نہیں  بنا سکتا۔ آزادی کے  اس اعلان کو ترقی پسندوں نے  سماجی شعور کے  فقدان اور سماجی معنویت سے  انکار کا نام دے  کر ردّ کرنے  کی کوشش کی۔ حقیقت محض اتنی سی ہے  کہ ہم میں  سے  اکثر کی وابستگی ادب کے  ساتھ سچی اور گہری نہیں ہے  اس لئے  ان لوگوں  کو ایسی شاعری ہمیشہ پریشان کن معلوم ہو گی جو خارج کو داخل کے  آئینے  میں  دیکھنے  کی سعی کرتی ہے  جو اس بات کی فکر نہیں کرتی کہ کلام میں  سماجی آگہی کا ظہور کتنا ہے  اور کیا اس کے  غیاب کو اس کے  ظہور کا نام دے  سکتے  ہیں۔ جواس بات کی فکر کرتی ہے  کہ کلام سچا اور ذاتی اظہار ہے  یا اس پر کسی فارمولے  کی رو سے  تنقید ہو سکتی ہے  ایسی شاعری اپنے  داخلی سرچشموں  کو اپنے  سچ کا  معیار مانتی ہے۔ ‘‘

    شروع میں  نئی غزل میں بھی کچھ ایسی تصویریں   نمودار ہوئی تھیں  جو اسے  پوری طرح سمجھ نہیں  سکی تھیں  لیکن جواس کے  بنیاد گزار تھے  وہ اس مسئلے  کو پوری طرح سمجھتے  تھے  اُن میں  غلام مرتضیٰ راہی کا نام بھی ہے  دلچسپ پہلو یہ ہے  کہ نئی غزل کے  آغاز میں  جو نام سامنے  آئے  تھے  اُن کے  لہجے  ایک دوسرے  سے  نہیں  ملتے  تھے  اور ایک انفرادی شان ہر جگہ موجود تھی۔ بانی، زیب غوری، مصورسبزواری، نشتر خانقاہی، غلام مرتضیٰ راہی سب اپنے  اپنے  لہجے  میں  ممتاز و منفرد تھے  اور ان منفرد لہجوں نے  ہی نئی غزل کو استحکام عطا کیا۔ یہاں  یہ بات کہنا ضروری ہے  کہ ابتدائی لمحوں میں  نمودار ہونے  والے  نئی غزل کے  شعراء نے  ہی جو خشت اول رکھی تھی اس پرساری عمارت تعمیر ہوئی اور ثریا کی رفعتوں  تک یہ دیوار سیدھی صاف ایک خط مستقیم کی طرح اپنی عمودی شان و شوکت کے  ساتھ مینارِ بابل کی طرح بلند ہوتی چلی گئی اور وہ تمام لہجے  اس ساحل بیکراں پر خذف ریزوں  کی طرح پڑے  رہ گئے  جنہیں  لہریں  بہا کر تو لاتی ہیں  لیکن از کار رفتہ اشیا میں  شمار کر کے  انہیں  ہاتھ نہیں  لگاتی ہیں۔ اس سمندرکے  ساحلوں کا  سفرشروع کریں  تو ان گوہروں  کے  رنگوں کا تموج نظر آئے  گا جوا تھاہ میں پڑے  ہیں  لیکن ساحلوں  پر ان کی قوس قزحی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں  بعد کی نسلوں نے  خود کوسجایاسنوارا اس طرح بیسویں  صدی کا نصف اول ختم ہوتے  ہی نئی غزل نے  جوشہسوارپیداکئے  ان میں  غلام مرتضیٰ راہی کا  نام اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹرسراج اجملی نے  اپنی تحریر میں  ان لوگوں کا نام بھی لیا ہے  جو راہی سے  کچھ پہلے  ہوئے  ہیں  اور جن کے  یہاں  روایت کی دریافت نو کا عمل ہے۔

    ’’ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی، ابن انشاء، شکیب جلالی وغیرہ کے  یہاں  روایت کی دریافت نو کا عمل جس طرح تخلیقی مزاج کا حصہ بنا ہے  اور اس نے  جدید شاعری کے  بنیاد گزاروں کو جس طرح متمول کیا ہے  وہ ہماری تاریخ ادب کا  نہایت درخشاں  باب ہے۔ راہی نے  بھی انحراف کے  بجائے  انجذاب کو اپنایا اور اپنے  پیش روؤں  کے  راستے  پر چلتے  ہوئے  ہی اپناسفر جاری رکھا۔ ان کے  جذبۂ تخلیق اظہار کی برملا صلاحیت اور حسن بیان نے  انہیں  توانا کیا اور جدید شعراء کی صف میں  ایک نمایاں  مقام عطا کیا۔ ‘‘

    اس تحریر سے  صاف ظاہر ہے  کہ جدید غزل میں  غلام مرتضیٰ راہی کا کیا مقام ہے  اور وہ کس مرتبے  پر فائز ہیں۔ لازم ہے  کہ راہی کی غزل کے  حوالے  سے  جن اساطین ادب کا نام لیا گیا ہے  ان کے  اشعار کی مثالیں  دی جائیں  ان کے  تناظر میں  بات ہو لیکن ایک بات جو گذشتہ برسوں میں  بار بارسامنے  آئی ہے  اس پر اظہار خیال کرنا ضروری ہے۔ ان کی غزل پر بہت لکھا گیا ہے  ان کی غزل پر مشاہیر ادب کی آراء ہیں  لیکن ان میں  ایسے  بھی ہیں  جونئی غزل کی تاریخ سے  قطعی واقف نہیں  ہیں  انہوں نے  راہی جیسے  نئی غزل کے  شہسوارکا نام بشیر بدر اور نامی انصاری جیسے  لوگوں  سے  جوڑ دیا ہے  ظاہر ہے  بشیر بدر ایک کاروباری شاعر ہے، مشاعرے  میں  پیسہ کمانے  کے  لئے  ایک مداری کا  کردار ادا کرنے  والا۔ نامی انصاری ترقی پسند شاعر ہیں جن کا نئی غزل سے  کوئی رشتہ ناطہ نہیں۔ ان باتوں  کی وضاحت ضروری ہے  کہ تجزیہ و تبصرہ میں  اس بات کا  خاص خیال رکھا جائے  کہ جوجس منصب پر فائز ہے  اسی سطح سے  بات کی جائے۔ مجھے  ادب کا مطالعہ کرتے  ہوئے  کم و بیش پچاس سال گزر چکے  ہیں  میں نے  وہ دن بھی دیکھے  ہیں جب جدید ادب کا سورج طلوع ہوا تھا وہ دن بھی دیکھے  ہیں  اس کے  ہراول دستے  میں کون کون لوگ تھے۔ جس کے  عظیم الشان پرچم تلے  ایک نسل نے  سفرشروع کیا تھا وہ اپنے  پیش روؤں  خصوصاً ترقی پسندوں کی نفی کرتی ہوئی بڑھ رہی تھی۔ میں نے  جدید غزل پر طعن و تعریض کا غوغا بھی دیکھا، الزامات و اتہامات کا منظر بھی دیکھا۔ میں  جانتا ہوں  کہ اس وقت کون کہاں  تھا۔ اس لئے  اس طرح کی باتیں  کرنا محض  کار فضول ہے  جو حقیقت سے  پرے  ہوں۔ راہی نئی غزل کے  بنیاد گزاروں  میں ہیں  اور اس قطار میں  ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی، ابن انشاء، شکیب جلالی کے  بعد جو نام آتے  ہیں  ان کے  اشعار پیش کرنے  کی جسارت کر رہا ہوں لیکن اس سے  پہلے  میں  ان چار اہم شاعروں  کا   نمونۂ کلام بھی پیش کروں گا جوبیسویں صدی کا نصف اول ختم ہونے  سے  پہلے  ہی اپنے  لہجے  سے  پہچانے  جانے  لگے  تھے۔ گویا اپنا مقام نئی غزل میں  بنا چکے  تھے  ایک قصر نو کی طرح ڈال چکے  تھے  یہ وہی تھے  جن کا ذکر میں نے  ابھی ابھی سطوربالامیں  کیا ہے۔

اس پر بھی دشمنوں  کا  کہیں  سایہ پڑ گیا

غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا


غیروں  نے  مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر

میں کیوں نہ اپنی خاک میں  غیرت سے  گڑ گیا

خلیل الرحمن اعظمی


ہم بھی وہاں  موجود تھے  ہم سے  بھی سب پوچھا کئے

ہم ہنس دئیے  ہم چپ رہے  منظور تھا پردہ ترا


کوچے  کو تیرے  چھوڑ کر جو گی تو بن جائیں  مگر

بستی تری صحرا ترا جنگل ترا دریا ترا

ابن انشاء


تو نے  بنجر زمیں  کو پھول دئیے

مجھ کو اک زخمِ دلکشا ہی دے


چاند نکلا تو ہم نے  وحشت میں

جس کو دیکھا اُسی کو چوم لیا

ناصر کاظمی

مری گرفت میں  آ کر نکل گئی تتلی

پروں  کے  رنگ مگر رہ گئے  ہیں  چٹکی میں


کہیں  جو بن نہ سکی وہ کلی کی تربت تھی

کوئی جو سن نہ سکا  وہ ہوا کا  نوحہ تھا

 شکیب جلالی

    

یہ وہ شعراء تھے  جنہوں نے  ترقی پسندیت سے  بغاوت کی۔ فرد کے  نہاں  خانوں میں  چھپے  ہوئے  کرب کو تلاش کیا اور اس کا  اظہار کیا کیونکہ بہت سی چیزوں کو اجتماعی طور پر بیان نہیں  کیا جا سکتا۔ یہ وہ درد ہے  جو قطرہ قطرہ اپنے  وجود کے  زنداں  میں  ٹپکتا ہے۔ ان شعراء کے  فوراً ہی بعد وہ شہسوار اُبھرے  اور انہیں  میں غلام مرتضیٰ راہی بھی تھے۔ یہ اشعار دیکھئے  :

کیا دلخراش کام ہوا ہے  مرے  سپرد

اک زرد رُت کے  برگ و ثمر چن رہا ہوں میں


اے  گل آوارگی تیری مہک تاروں سے  کھیلے

اے  ندی بہتا رہے  دائم ترا بیدار پانی

 

عجیب تجربہ تھا بھیڑسے  گزرنے  کا

مجھے  بہانہ ملا اس سے  بات کرنے  کا


سیاہ خانۂ امید رائیگاں  سے  نکل

کھُلی فضا میں  کبھی آ غبارِ جاں  سے  نکل


پرندے  پہلی اڑانوں کے  بعد لوٹ آئے  

چمک اٹھا کوئی احساس رائیگانی کا

بانی


میں  راکھ ہو گیا دیوارِ سنگ تکتے  ہوئے

سنا سوال نہ اس نے  کوئی جواب دیا


رات کے   ہاتھ میں  تھا گوہر یک دانہ کوئی

چاند تاریک سمندر میں  گرا آہستہ


یہ ڈوبتی ہوئی کیا شے  ہے  تیری آنکھوں میں

ترے  لبوں  پہ جو روشن ہے  اس کا  نام ہے  کیا


کبھی کبھی تو مکمل بنا کوئی تصویر

کہ زیب کچھ تو رہے  ذہن نارساکے  لئے


یہ ماہتاب ترے  رنگ سے  قریب سہی

کہاں سے  لائے  گا خوشبو ترے  بدن کی طرح

زیب غوری


شام ہوتے  ہی کچھ احساس زیاں مجھ کو ہوا

رات کے  ڈھیر میں  کچھ ڈھونڈ رہا تھا وہ بھی

یہ فیصلہ کریں  بنجر سماعتیں  مل کر

کہ نا شنیدہ صدا کو کہاں  پہ بونا ہے


سکوت آب سے  ڈر کر جو ماری چیخ اُس نے

تو اک کٹا ہوا دریا سے  سر نکل آیا


ذرا سی دیر میں  آسیب سامنے  ہو گا

کواڑ ٹوٹ چکے  ہیں  ہوا سے  لڑتے  ہوئے  


طعنہ گندے  عشق کا  سن کر وہ پہلے  چپ رہا

پھر اٹھا اور برہنہ تلوار پر چلنے  لگا

مصورسبزواری


دھوپ کے  قہر کا  ڈر ہے  تو دیارِ شب میں

سربرہنہ کوئی پرچھائیں  نکلتی کیوں  ہے


کوئی صورت ہو کہ پھر آگ رگ و پے  میں بہے

راکھ بننے  کو بکھر جانے  کو جی چاہتا ہے


میری مٹھی نے  رہا کر دیا صحراؤں  کو

ورنہ آوازِ جرس ساتھ میں  کیا لے  جاتی


سبھی کو غم ہے  سمندر کے  خشک ہونے  کا

کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں  ڈبونے  کا


میں  اپنے  جسم کی سرگوشیوں  کو سنتا ہوں

ترے  وصال کی ساعت نکلتی جاتی ہے

شہریار


تشنگی ڈھونڈ رہی ہے  ہمیں  صحرا صحرا

اور ہم ہیں  کہ لب آبِ رواں  بیٹھے  ہیں


غبار ختم ہوا روشنی سی بھر گئی ہے

کسی کے  نقش قدم سے  زمیں  سنور گئی ہے


بہت دنوں  میں  ہوئی ہے  رگِ گلو روشن

سناں  کی نوک پہ ہو جائے  پھر لہو روشن

سلطان اختر


وہ چاہے  جامۂ سرمد ہو یا سر منصور

اگر اناسے  ہے  نسبت تو لازوال ہے  خاک


چلو جہاں  پہ تو چمکی اس آفتاب کی لَو

ہمارے  دل میں  نہ روشن ہوئی کہیں  تو ہوئی


نہ خاکِ عالم بو اور نہ خیمۂ خوشبو

اک اس کی روشنی ہے  آئینے  میں  میں  اور تو


یہ ایک لمحۂ فانی ہماری ذات سے  ہے

ہمارے  خون سے  ہے  سینۂ حنا روشن

کرشن کمار طور


زمین گھومتی رہتی ہے  اپنے  محور پر

میں  بن چکا  ہوں  مجھے  چاک سے  اتارا جائے


چلے  چلو کہ خبر گرم ہے  ہواؤں  نے

حلف اٹھایا ہے  بازو ہمارے  توڑنے  کا


اک جھرجھری سی دور تلک لی زمین نے

بچّے  نے  شاخِ گل سے  بندھا بم اٹھا لیا


فنا کی چاردیواری یہاں  بھی ہے  وہاں بھی ہے

مکینوں کے  لئے  آسیب کس گھر میں نہیں  رہتا


اور پھر آخری درویش کی باری آئی

باغِ افسانہ میں  ندرت کی سواری آئی

مظفر حنفی

میں  ایک قطرۂ شبنم ہوں  دامنِ گل پر

اٹھائے  سیکڑوں  نیزوں  پہ آفتاب مجھے


دنیا بہت بری ہے  مگر بے  ہنر نہیں

ظالم نے  جو فریب دیا خوشنما دیا


مجھے  تمہارے  سوا کوئی چھو نہیں  سکتا

کہ میری روح تمہارے  بدن میں  رہتی ہے


میری خطا یہ تھی کہ جدا دوسروں  سے  تھا

اس واسطے  حنوط مجھے  کر دیا گیا


ہنر دیا بھی نہیں  لے  لیا انگوٹھا بھی

بڑے  کمال کی فنکار ہے  یہ دنیا بھی

مدحت الاختر


یہ دل یہ شہر خموشاں  مزار یادوں  کے

حنوط کی ہوئی لاشیں  دبی ہوئی ہیں  یہاں


ہیں  کس کے  تعلق سے  مری آنکھ میں  آنسو

مٹھی میں صدف کی یہ گہر کس کے  لئے  ہے


جھپکی نہ میری آنکھ نہ ویراں گگن ہوا

پچھلے  پہر کے  چاند سے  کیا کیا سخن ہوا


کچھ ایسا بود و باش کا  انداز تھا کہ ہم

تھے، پر کسی کو بے  سر و ساماں  نہیں  لگے


کوئی ہو گوہر یکتا تو سامنے  لاؤ

تمہارے  پاس ہماری مثال میں  کچھ ہے

نشتر خانقاہی


بہتی ندی کی موج نے  چپکے  سے  یہ کہا

نادان ایک خبط ہے  یہ لذتوں  کی پیاس


بشکل عمر ملی بھیک جس سے  لمحوں  کی

وہ وقت میرے  لئے  بے  کنار کیسے  ہوا


بہت ہی سرد ہے  ابکے  دیارِ شوق کا  موسم

چلو گزرے  دنوں کی راکھ میں  چنگاریاں ڈھونڈیں

 ٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                            ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول