صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
بڑے نصیب کی بات ہے
حج کا سفر نامہ
صفدر قریشی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
فضائل حج--- نوازشیں ہی نوازشیں
انسان
ہر چیز کو نفع و نقصان کی ترازو میں تولنے کا فطری طور پر
عادی ہے۔ عبادات کے معاملے میں بھی اس کا یہی رویہ
کارفرما ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لاشعوری طور پر دل
میں یہ خیال آتا ہے کہ نماز پڑھنے سے کیا
ملے گا؟روزہ رکھنے،زکوٰۃ دینے یا حج کرنے سے کیا
فائدہ ہو گا؟نماز روزہ تو خیر بدنی مشقت ہے اس میں کوئی روپیہ
پیسہ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے برعکس زکوٰۃ اور حج میں
مال کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اور جہاں روپیہ خرچ ہو گا وہاں
اس کی واپسی کی خواہش بھی پیدا ہو گی۔ یہ خواہش فطری ہے سوداگری یا
بنیا پن نہیں۔ اس فطری تقاضے کے پیشِ نظر خدا اور خدا کا
رسولﷺ اعمال کے فضائل کی بشارتیں سناتے اور انعامات
سے نوازتے ہیں۔
ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا ہے :۔
جس
شخص نے اللّٰہَ کے لئے حج کیا(اس کے دوران
میں)اس نے کوئی فحش گوئی کی نہ کوئی برا کام تو وہ گناہوں
سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح اس کی ماں
نے اسے ابھی جنم دیا تھا۔
اور عمرہ کے متعلق حضورﷺ کا فرمان ہے :۔
"ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے گناہوں کے لئے کفارہ ہے۔
حضورﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ:۔
"رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے "
ایک مسلمان کی حیثیت سے تمام مومنین کی سب سے بڑی خواہش حضورﷺ
کا ساتھ ہے۔ اور پھر جنت کا ساتھ۔ اس سے بڑی خوش بختی کیا ہو سکتی
ہے !بات یقین کی ہے۔ اللّٰہَ اور اللّٰہَ کے رسولﷺ پر
یقینِ کامل کی۔ اصل انعام تو ماننا ہے۔ جس نے اللّٰہَ اور اس
کے رسولﷺ کی مانی پوری مخلوق اس کی تابعدار ہے۔ دنیا اور آخرت کی
نعمتیں اس کا انعام اور حضورﷺ،اہلِ بیعت اور صحابہ کرامؓ کی سنگت اس
کا مقدر ہے۔ جنت مقامِ معصومیت ہے،یہ صلحاء اور معصوموں کا گھر ہے۔
اور حاجی یقیناً ایسا معصوم ہے جیسا نو زائیدہ بچہ۔ تو!
اے خوش نصیب لوگو کہ جن کو بڑی بارگاہ سے بلاوا آیا ہے۔ یقین
رکھو کہ بادشاہوں کے بادشاہ نے ان کی درخواست منظور کر
لی ہے۔ وہ قبول ہو گئے ہیں۔ اور اے قبول ہونے والو!
اُس بڑی بارگاہ میں اس فقیر کی درخواست بھی دائر کر دینا۔
عرض کرنا!
رحمت دا دریا الٰہی ہر دم و گدا اے تیرا
جے اک قطرہ بخشیں مینوں کم بن جاندا ای میرا (میاں محمد)
(اے
ارحم الرحمین تیرا دریائے رحمت توہر وقت رواں ہے اگر
ایک قطرہ اس فقیر کو نصیب ہو جائے تو اس کی بگڑی بن جائے)
اور پھر!
آقائے دوجہاں سے میرا سلام کہنا۔
سوئے حرم
جسے چاہا اپنا بنا لیا جسے چاہا در پہ بلا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
ہاں تو!
اے خوش نصیبو!
اے قبول ہونے والو!یقین جانو یہ قبولیت کی بات ہے۔ اس
میں کسی کے ذاتی کمال، علم و فضیلت یا زہد و
تقویٰ کا دخل نہیں بلکہ بلانے والے کی اپنی مرضی
ہے،اس کی منشاء ہے،اس کی حکمت ہے۔ ہمیں اس کی حکمت اور قدرت کا
احساس و ادراک نہیں۔ یقیناً یہ ایسی نعمت ہے جس کی طلب میں
بڑے بڑے تڑپتے پھڑکتے،دعائیں کرتے،آہیں
بھرتے اور زاریاں کرتے ہیں پھر بھی انہیں
اللّٰہ کے گھر اور نبیﷺ کے در کی زیارت نصیب نہیں ہوتی۔
اللہ جانے اس میں اللہ کی کیا حکمت ہے۔ حکمت کا کھوج لگانا
ضروری نہیں حکم ماننا ضروری ہے۔
اے عازمینِ حج!
یہ مبارک سفر عشق و محبت کا عملی مظاہرہ ہے۔ اور عشق میں کیا؟کیوں
؟کیسے جیسے اشکالات و سوالات نہیں ہوتے۔ یہاں تو
ایک ہی بات ہے۔
"سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے "
سو اس سفر میں اپنی فہم و فراست اور زہد و علم کو بھول کر صرف
اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسولﷺ کے حکم کے تابع
ہونا ہے۔ اپنے آپ کو مکمل طور پر اللّٰہ اور رسولﷺ کی
تحویل میں دے دینا ہے۔ اللّٰہ بندے کی خود
سپردگی چاہتا ہے۔ مکمل سپردگی۔ اگرچہ انسان مکمل طور پر
اللّٰہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ وہ زبردستی بھی منوا سکتا
ہے مگر اس کا تقاضا ہے کہ بندہ اپنی رضامندی سے
اپنے آپ کو میرے حوالے کرے۔
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
٭٭٭