صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
براہِ راست
گلزار جاوید
ممتاز و منتخب اہلِ قلم سے مکالمہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تابش دہلوی
٭ ازدواجی زندگی اور اولاد کے بارے کچھ بتائیے؟
٭٭ میں نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی کا تعلق دلی کے عرب والے سادات سے تھا۔ ان کے انتقال کے بعد دوسری شادی نواب طالع یار خاں کی پوتی سے کی۔ دوسری بیوی کی ننھیال حکیم اجمل خاں اور لوہارو کے خاندانوں سے ہے۔ میری بیوی کی ددھیال نواب مصطفی خان شیفتہ کا خاندان ہے۔ غالب میری بیوی کے رشتے کے خالو تھے۔ حکیم اجمل خان رشتے کے نانا تھے۔ ان سے تین لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ سب بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔
٭ آپ نے کس ماحول اور کن حالات میں شعر کہنے کی ابتداء کی؟ معاشی، معاشرتی ، تہذیبی ، تمدنی اور خاندانی پسِ منظر کے ساتھ بیان کیجئے؟
٭٭ میرے اجداد فارسی کے اچھے شاعر تھے اور میری ننھیال شمس العلماء منشی ذکا ء اللہ کا گھرانا ہے ، اس کے علاوہ میری والدہ بہت ذی علم تھیں انہیں اردو اور فارسی کے سینکڑوں شعر یاد تھے اور میری شاعرانہ ذہنیت کو ان کی تربیت سے زیادہ مدد ملی پھر دلی شہر میں بھی ادبی ماحول تھا۔ میر ناصر علی، حسن نظامی ، قاری سرفراز حسین، مرزا محمد سعید پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور، ناصر نذیر فراق ، سجاد مرزا دہلوی، شاعروں میں آغا شاعر قزلباش، بیخود دہلوی، سائل دہلوی، امرناتھ ساحر وغیرہ تھے۔ اس کے علاوہ میری ذہنی تربیت دراصل حیدر آباد دکن میں زیادہ ہوئی۔ میرے نانا مولوی عنایت اللہ جو ذکاء اللہ صاحب کے بڑے بیٹے تھے ناظم دار الترجمہ تھے۔ میں انہی کے ساتھ حیدر آباد میں تھا وہاں طباطبائی مرزا ہادی و رسوا، وحید الدین سلیم پانی پتی وغیرہ وغیرہ کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔
میں نے پہلا شعر ۱۹۲۳ء میں گیارہ بارہ سال کی عمر میں کہا۔ وہ بھی ایک طرحی مشاعرہ کے لئے
کہا ں کہاں مجھے مسعود لوگ ڈھونڈ آئے
بھلا میں اس کی گلی کے سوا کہاں ہوتا
٭ آپ کو اگر ’’فانی‘‘ سکول کا طالب علم کہا جائے تو آپ کا ردِ عمل کیا ہو گا؟
٭٭ میں فانی اسکول کا طالب علم ہی نہیں ہوں حضرت فانی کا شاگرد ہوں اور اس پر مجھے فخر ہے۔ میری ساری ذہنی تربیت حضرت فانی نے کی ہے۔
٭ مسعود تابش اور تابش دہلوی کے جداگانہ تشخص اور برتاؤ کے آپ کے زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟
٭٭ مسعود تابش کے نام سے میں نے ۲۳ سال آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے خبریں پڑھیں اور مجھے پطرس بخاری نے نوکر رکھا تھا مگر مسعود تابش سے پہلے تابش دہلوی کے نام سے ادبی دنیا میں جانا جاتا تھا اور ریڈیو کی نوکری سے میں نے کبھی ناجائز نام کمانے کی کوشش نہیں کی۔ میں تابش دہلوی اس وقت بھی تھا اور ملک کے معتبر رسائل میں میرا کلام شائع ہوتا رہتا تھا۔
٭ آپ غزل کے نہایت مستند اور قابل احترام اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں حالانکہ آپ کا قاری آپ کی نظم ، نثر اور تنقیدی جوہر کو بھی سراہے بنا نہیں رہ سکتا۔ اس صورتحال کو آپ کس نام اور مفہوم سے موسوم کریں گے؟
٭٭ غزل عجیب صنف شعر ہے۔ نظم کے مشہور شعراء نے بھی مثلاً اقبال اور جوش نے بھی غزل ہی سے نظم گوئی کی طرف رخ کیا، شعر گوئی میں خواہ کوئی صنف ہو غزل کی مشق ہی سے مضبوطی پیدا ہوتی ہے پھر اس کا دائرہ نہایت وسیع ہے ، میں نے نظمیں بھی کہی ہیں معرا شاعری بھی کی ہے ، نثری مضامین خاص طور پر شخصیتوں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔ تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں مگر جی غزل ہی میں لگتا ہے ہائے غزل !!!
٭ ساری عمر سوگواری سے آپ کا قاری کیا مراد لے اور برباد محبت سے کیا مفہوم قائم کرے؟
٭٭ فنونِ لطیفہ کے تمام فنکار غمگیں ہوتے ہیں ، یہ غم روٹی کپڑے مکان کا نہیں ہوتا بلکہ احساس حسن کی شدت سے اک ایسا سوز روح میں گھر رکھتا ہے کہ جس کی لذت بیاں سے باہر ہے میں غمگیں آدمی ہوں اور بقول میرے استاد حضرت فانی
درد کا روحانی بنا ترقی ہے
یہی سوز تو فنون لطیفہ کے شاہکار پیدا کرتا ہے یہ نہ ہو تو فنون لطیفہ کی ترقی معلوم؟
٭ آپ کے ہاں قدیم اور جدید میں جو حسن توازن پایا جاتا ہے وہ ارادی ہے یا اتفاقی؟
٭٭ آدمی کو زمانہ کے ساتھ چلنا چاہئے بشرطیکہ زمانہ کی رفتار کی سمت درست ہو، شاعر تو حالات اور واقعات سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا، چنانچہ میری شاعری بھی دور حاضر کی تمام تحریکوں سے متاثر ہوئی اور میں نے ارادی طور پر اپنی شاعری کو روایت اور جدت سے ہم آہنگ رکھا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جدت میں دوسروں کی نقل نہ کروں بلکہ اپنے مضامین اپنے استعارے اپنی تشبیہات استعمال کروں اور یہ تعلی نہیں ہے میرے اکثر شعر عام جدید شعراء کے مضامین سے بالکل الگ ہیں اور اردو میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
٭ عہدِ شباب میں آپ ترقی پسند تحریک سے متاثر یا منسلک تھے؟ ہم آپ کے نظریہ فن اور نظریہ زندگی کی بابت اپنے قاری کو باخبر کرنا چاہتے ہیں۔
٭٭ میں بھی ترقی پسند ادبی تحریک سے منسلک رہا ہوں مگر اس تحریک نے جب ایک خاص ملک کے سیاسی تصور سے اپنے آپ کو منسلک کر لیا تو میں ہی کیا بہت سے لوگ اس سے الگ ہو گئے اور ترقی پسندی کی ادبی تحریک صرف نعرہ بازی بن کر رہ گئی۔ میں ادب برائے زندگی یا ادب برائے ادب کا قائل نہیں ہوں اور یہ فقرے نقادوں نے اپنی دکان چمکانے کے لئے ایجاد کئے ہیں کیونکہ زندگی کی تبدیلیوں سے بغیر کوشش کے بھی شاعر تو شاعر عام آدمی بھی متاثر ہوتا ہے اور زندگی کی تبدیلیوں کے اثرات ہر شعبہ میں نظر آنے لگتے ہیں۔ ادب تو عکاس ہوتا ہے۔ زندگی کا جیسا معاشرہ ویسا ادب جب معاشرے کی قدریں مصنوعی تھیں تو ہمارا ادب بھی مصنوعی تھا اور اب زندگی اپنی ٹھوس حقیقتوں سے متصادم ہے اس لئے یہ تصادم ادب میں بھی نظر آتا ہے۔
٭ یہ فرمائیے کہ فانی، فراق ، یگانہ ، اصغر ، جگر ، حسرت جیسے بلند پایہ شعراء کی موجودگی میں غزل میں نام پیدا کرنے کے لئے آپ کو کیا کیا جتن کرنا پڑے؟
٭٭ فانی ، حسرت ، اصغر، جگر اور یگانہ کی موجودگی میں میں نے نام پیدا کرنے کے لئے صرف یہ کیا کہ شاعری خاص طو رپرغزل کی صالح روایات کی پیروی کی اور کوشش کی کہ غزل میں اپنا اسلوب اظہار پیدا کروں۔ اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا اس کا فیصلہ اہل ادب کر سکتے ہیں۔ برصغیر کے تمام بڑے نقادوں مع فراق کے میرے تعلقات سب سے تھے مگر میں نے کسی سے بیساکھی نہیں مانگی اور نہ ریڈیو کی ملازمت کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنایا۔
٭ اس دور میں ترنم کا بڑا دخل تھا شائد آج بھی ہے آپ ہمیں ترنم کے بغیر مشاعرہ لوٹنے کے فن سے آگاہ کیجئے؟
٭٭ ترنم کا دور ختم ہوا، تحت اللفظ پڑھنے والے اور مشاعرے لوٹنے والے بہت شاعر ہوئے ہیں مثلاً دلی میں آغا شاعر قزلباش اور اس دور میں فیض ، فراز وغیرہ ترنم میں شعر کا عیب ظاہر نہیں ہوتا اور سننے والا ترنم میں محو رہتا ہے۔ تحت اللفظ میں شعر اپنی اصلی خوبیوں اور برایوں کے ساتھ قاری تک پہنچتا ہے۔
٭ شاعری کی روح کو زندہ رکھنے والے اچھے بھلے مشاعروں کو آپ دنگل بھی قرار دیتے ہیں اور ان میں شرکت بھی فرماتے ہیں کیا ہم اسے دو عملی سمجھنے میں حق بجانب ہیں؟
٭٭ اب مشاعرے دنگل نہیں تو اور کیا ہیں لوگ سینما نہیں گئے مشاعرے میں چلے گئے اور سامعین میں کتنے ہیں جو شعر سمجھتے ہیں۔ اب رہا میرے مشاعرے میں شرکت کا سوال تو تعلقات کے آگے جھکنا پڑ جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ سب مشاعرے دنگل نہیں ہیں بعض بہت عمدہ ہوتے ہیں یہ دو عملی ہے۔
٭٭ میں نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی کا تعلق دلی کے عرب والے سادات سے تھا۔ ان کے انتقال کے بعد دوسری شادی نواب طالع یار خاں کی پوتی سے کی۔ دوسری بیوی کی ننھیال حکیم اجمل خاں اور لوہارو کے خاندانوں سے ہے۔ میری بیوی کی ددھیال نواب مصطفی خان شیفتہ کا خاندان ہے۔ غالب میری بیوی کے رشتے کے خالو تھے۔ حکیم اجمل خان رشتے کے نانا تھے۔ ان سے تین لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ سب بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔
٭ آپ نے کس ماحول اور کن حالات میں شعر کہنے کی ابتداء کی؟ معاشی، معاشرتی ، تہذیبی ، تمدنی اور خاندانی پسِ منظر کے ساتھ بیان کیجئے؟
٭٭ میرے اجداد فارسی کے اچھے شاعر تھے اور میری ننھیال شمس العلماء منشی ذکا ء اللہ کا گھرانا ہے ، اس کے علاوہ میری والدہ بہت ذی علم تھیں انہیں اردو اور فارسی کے سینکڑوں شعر یاد تھے اور میری شاعرانہ ذہنیت کو ان کی تربیت سے زیادہ مدد ملی پھر دلی شہر میں بھی ادبی ماحول تھا۔ میر ناصر علی، حسن نظامی ، قاری سرفراز حسین، مرزا محمد سعید پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور، ناصر نذیر فراق ، سجاد مرزا دہلوی، شاعروں میں آغا شاعر قزلباش، بیخود دہلوی، سائل دہلوی، امرناتھ ساحر وغیرہ تھے۔ اس کے علاوہ میری ذہنی تربیت دراصل حیدر آباد دکن میں زیادہ ہوئی۔ میرے نانا مولوی عنایت اللہ جو ذکاء اللہ صاحب کے بڑے بیٹے تھے ناظم دار الترجمہ تھے۔ میں انہی کے ساتھ حیدر آباد میں تھا وہاں طباطبائی مرزا ہادی و رسوا، وحید الدین سلیم پانی پتی وغیرہ وغیرہ کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔
میں نے پہلا شعر ۱۹۲۳ء میں گیارہ بارہ سال کی عمر میں کہا۔ وہ بھی ایک طرحی مشاعرہ کے لئے
کہا ں کہاں مجھے مسعود لوگ ڈھونڈ آئے
بھلا میں اس کی گلی کے سوا کہاں ہوتا
٭ آپ کو اگر ’’فانی‘‘ سکول کا طالب علم کہا جائے تو آپ کا ردِ عمل کیا ہو گا؟
٭٭ میں فانی اسکول کا طالب علم ہی نہیں ہوں حضرت فانی کا شاگرد ہوں اور اس پر مجھے فخر ہے۔ میری ساری ذہنی تربیت حضرت فانی نے کی ہے۔
٭ مسعود تابش اور تابش دہلوی کے جداگانہ تشخص اور برتاؤ کے آپ کے زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟
٭٭ مسعود تابش کے نام سے میں نے ۲۳ سال آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے خبریں پڑھیں اور مجھے پطرس بخاری نے نوکر رکھا تھا مگر مسعود تابش سے پہلے تابش دہلوی کے نام سے ادبی دنیا میں جانا جاتا تھا اور ریڈیو کی نوکری سے میں نے کبھی ناجائز نام کمانے کی کوشش نہیں کی۔ میں تابش دہلوی اس وقت بھی تھا اور ملک کے معتبر رسائل میں میرا کلام شائع ہوتا رہتا تھا۔
٭ آپ غزل کے نہایت مستند اور قابل احترام اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں حالانکہ آپ کا قاری آپ کی نظم ، نثر اور تنقیدی جوہر کو بھی سراہے بنا نہیں رہ سکتا۔ اس صورتحال کو آپ کس نام اور مفہوم سے موسوم کریں گے؟
٭٭ غزل عجیب صنف شعر ہے۔ نظم کے مشہور شعراء نے بھی مثلاً اقبال اور جوش نے بھی غزل ہی سے نظم گوئی کی طرف رخ کیا، شعر گوئی میں خواہ کوئی صنف ہو غزل کی مشق ہی سے مضبوطی پیدا ہوتی ہے پھر اس کا دائرہ نہایت وسیع ہے ، میں نے نظمیں بھی کہی ہیں معرا شاعری بھی کی ہے ، نثری مضامین خاص طور پر شخصیتوں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔ تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں مگر جی غزل ہی میں لگتا ہے ہائے غزل !!!
٭ ساری عمر سوگواری سے آپ کا قاری کیا مراد لے اور برباد محبت سے کیا مفہوم قائم کرے؟
٭٭ فنونِ لطیفہ کے تمام فنکار غمگیں ہوتے ہیں ، یہ غم روٹی کپڑے مکان کا نہیں ہوتا بلکہ احساس حسن کی شدت سے اک ایسا سوز روح میں گھر رکھتا ہے کہ جس کی لذت بیاں سے باہر ہے میں غمگیں آدمی ہوں اور بقول میرے استاد حضرت فانی
درد کا روحانی بنا ترقی ہے
یہی سوز تو فنون لطیفہ کے شاہکار پیدا کرتا ہے یہ نہ ہو تو فنون لطیفہ کی ترقی معلوم؟
٭ آپ کے ہاں قدیم اور جدید میں جو حسن توازن پایا جاتا ہے وہ ارادی ہے یا اتفاقی؟
٭٭ آدمی کو زمانہ کے ساتھ چلنا چاہئے بشرطیکہ زمانہ کی رفتار کی سمت درست ہو، شاعر تو حالات اور واقعات سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا، چنانچہ میری شاعری بھی دور حاضر کی تمام تحریکوں سے متاثر ہوئی اور میں نے ارادی طور پر اپنی شاعری کو روایت اور جدت سے ہم آہنگ رکھا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جدت میں دوسروں کی نقل نہ کروں بلکہ اپنے مضامین اپنے استعارے اپنی تشبیہات استعمال کروں اور یہ تعلی نہیں ہے میرے اکثر شعر عام جدید شعراء کے مضامین سے بالکل الگ ہیں اور اردو میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
٭ عہدِ شباب میں آپ ترقی پسند تحریک سے متاثر یا منسلک تھے؟ ہم آپ کے نظریہ فن اور نظریہ زندگی کی بابت اپنے قاری کو باخبر کرنا چاہتے ہیں۔
٭٭ میں بھی ترقی پسند ادبی تحریک سے منسلک رہا ہوں مگر اس تحریک نے جب ایک خاص ملک کے سیاسی تصور سے اپنے آپ کو منسلک کر لیا تو میں ہی کیا بہت سے لوگ اس سے الگ ہو گئے اور ترقی پسندی کی ادبی تحریک صرف نعرہ بازی بن کر رہ گئی۔ میں ادب برائے زندگی یا ادب برائے ادب کا قائل نہیں ہوں اور یہ فقرے نقادوں نے اپنی دکان چمکانے کے لئے ایجاد کئے ہیں کیونکہ زندگی کی تبدیلیوں سے بغیر کوشش کے بھی شاعر تو شاعر عام آدمی بھی متاثر ہوتا ہے اور زندگی کی تبدیلیوں کے اثرات ہر شعبہ میں نظر آنے لگتے ہیں۔ ادب تو عکاس ہوتا ہے۔ زندگی کا جیسا معاشرہ ویسا ادب جب معاشرے کی قدریں مصنوعی تھیں تو ہمارا ادب بھی مصنوعی تھا اور اب زندگی اپنی ٹھوس حقیقتوں سے متصادم ہے اس لئے یہ تصادم ادب میں بھی نظر آتا ہے۔
٭ یہ فرمائیے کہ فانی، فراق ، یگانہ ، اصغر ، جگر ، حسرت جیسے بلند پایہ شعراء کی موجودگی میں غزل میں نام پیدا کرنے کے لئے آپ کو کیا کیا جتن کرنا پڑے؟
٭٭ فانی ، حسرت ، اصغر، جگر اور یگانہ کی موجودگی میں میں نے نام پیدا کرنے کے لئے صرف یہ کیا کہ شاعری خاص طو رپرغزل کی صالح روایات کی پیروی کی اور کوشش کی کہ غزل میں اپنا اسلوب اظہار پیدا کروں۔ اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا اس کا فیصلہ اہل ادب کر سکتے ہیں۔ برصغیر کے تمام بڑے نقادوں مع فراق کے میرے تعلقات سب سے تھے مگر میں نے کسی سے بیساکھی نہیں مانگی اور نہ ریڈیو کی ملازمت کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنایا۔
٭ اس دور میں ترنم کا بڑا دخل تھا شائد آج بھی ہے آپ ہمیں ترنم کے بغیر مشاعرہ لوٹنے کے فن سے آگاہ کیجئے؟
٭٭ ترنم کا دور ختم ہوا، تحت اللفظ پڑھنے والے اور مشاعرے لوٹنے والے بہت شاعر ہوئے ہیں مثلاً دلی میں آغا شاعر قزلباش اور اس دور میں فیض ، فراز وغیرہ ترنم میں شعر کا عیب ظاہر نہیں ہوتا اور سننے والا ترنم میں محو رہتا ہے۔ تحت اللفظ میں شعر اپنی اصلی خوبیوں اور برایوں کے ساتھ قاری تک پہنچتا ہے۔
٭ شاعری کی روح کو زندہ رکھنے والے اچھے بھلے مشاعروں کو آپ دنگل بھی قرار دیتے ہیں اور ان میں شرکت بھی فرماتے ہیں کیا ہم اسے دو عملی سمجھنے میں حق بجانب ہیں؟
٭٭ اب مشاعرے دنگل نہیں تو اور کیا ہیں لوگ سینما نہیں گئے مشاعرے میں چلے گئے اور سامعین میں کتنے ہیں جو شعر سمجھتے ہیں۔ اب رہا میرے مشاعرے میں شرکت کا سوال تو تعلقات کے آگے جھکنا پڑ جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ سب مشاعرے دنگل نہیں ہیں بعض بہت عمدہ ہوتے ہیں یہ دو عملی ہے۔
٭٭٭