صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بارہ ماسے کی جمالیات
شکیل الرّحمٰن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
بارہ ماسے کی جمالیات
ایسے اشعار میں جو محسوسات (Sensation) ہیں، دراصل انہی سے
جمالیاتی تجربہ خلق ہوا ہے۔ جبلّتوں (Instincts) کے اظہار کے سبب صورت اور
رنگ دونوں کا اظہار ہوا ہے۔ خیال اور احساس کی ہم آہنگی کی وجہ سے اشعار
میں مٹھاس پیدا ہوئی ہے۔
ہندوستانی آرٹ میں بیانیہ کا سانچہ اہمیت رکھتا ہے۔ بارہ ماسہ بھی ایک بیانیہ ہے، یہ بیانیہ ایک کرداری ڈراما بھی ہے کہ جس میں مصوّری اور موسیقی کی ادائیں بھی موجود ہیں۔ بنیادی طور پر بارہ ماسہ روحانی تجربہ ہے، ایک سادھنا ہے، بدلتے موسم میں عورت کی جذباتی نفسیاتی کیفیتوں کا اظہار ہوتا ہے، فطرت یا نیچر کبھی پس منظر نہیں بنتا، ہمیشہ سامنے اور ساتھ ہوتا ہے۔ فطرت کا جلال و جمال اور عورت کی نفسیاتی کیفیتیں ایک وحدت بن جاتی ہیں۔ یہی جمالیاتی وحدت بارہ ماسہ کا سب سے بڑا حسن ہے۔ موسم عورت کے وجود میں جذب ہوتا رہتا ہے، عورت کا موڈ یا اس کی کیفیت اہمیت رکھتی ہے۔ موسم اور عورت دونوں ایک دوسرے کے حسن کو حاصل کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر موسم کی روشنی کا اثر عورت کی آواز اور اس کے لب و لہجے پر ہو رہا ہے، ’روشنی‘ (Light) اور ’آواز‘ (Sound) کی ہم آہنگی سے ہی روحانی تجربے میں اُٹھان پیدا ہوتی ہے۔ ’روشنی‘ عورت کی ’سائیکی‘ (Psyche) میں جذب ہو جاتی ہے تو آواز اور لب و لہجے سے بیانیہ کا حسن بڑھ جاتا ہے، ایک کرداری ڈرامے میں موسموں کی کیفیتیں مختلف رنگوں کے ساتھ جگمگانے لگتی ہیں۔ بادل، بارش، ہولی کے رنگ، گرمی کی تپش اور بیساکھ کی تپش میں محبوب کے ساتھ اندھیرے کمرے میں سونے کی خواہش، یہ سب عورت کی ’سائیکی‘ سے مختلف متحرک تصویروں کی صورت باہر نکلتے محسوس ہوتے ہیں۔
’بارہ ماسہ‘ میں ’فطرت‘ اور ’موسم‘ روشنی (Light) ہے کہ جس سے ہر چیز صاف دِکھائی دینے لگتی ہے، ’سوار‘ ہے یعنی چمکتے رہنے والے پیکر تو عورت کا وجود ایک نغمہ ہے جو جدائی کے غم اور فطرت اور موسم کے چمکتے پیکروں کی روشنی لیے ہوئے مختلف آہنگ کے ساتھ گونج رہا ہے۔ بارہ مہینوں میں موسم کے ذکر کے ساتھ اپنی باطنی کیفیتوں کے بیان کا احساس ملتا رہتا ہے۔ ہر مقام پر زندگی کا حسن ہے، زندگی کا شہد ہے، زندگی کی خوشبو ہے۔ موسم زندگی کا تجربہ بن جاتا ہے، ہر موسم عورت کے جذبات کا پہلو بن جاتا ہے۔ جمالیاتی وحدت کی یہ کیفیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ محبت پھیلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، روحانی تجربہ گہرا ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ موسم کے بیان میں اپنے تجربوں اور اپنی خواہشوں کو جذب کرتے ہوئے کئی ’رسوں‘ (Rasas) کی پہچان ہوتی ہے۔ اپنے گہرے غم اپنی بے چینی، اضطراب اور کشمکش کو لیے جو اپنی پریم بھگتی کا اتنا جاذبِ نظر ڈراما پیش کرتی ہے وہ عورت بنیادی طور پر اپنی سائیکی کے ’سرینگار رَس‘ میں ڈوبتی اُبھرتی نظر آتی ہے۔ اس ’رس‘ (Rasa) کا تعلق ’سوم رَس‘ سے ہے جو انتہائی لذیذ، خوشبودار اور سیّال غذائے ربّانی ہے، اسے نوش کر کے دیوتا حیاتِ جاودانی پاتے ہیں۔ رقص رسوں کا بنیادی سرچشمہ ہے، بارہ ماسوں میں عورت کے باطن میں وجود کی گہرائیوں میں رقص جاری ہے۔ شرینگار رَس بھی جلال و جمال اور ان کی وحدت کا احساس و شعور ہے، جلال و جمال اُن کے مظاہر اور ان کی وحدت کا نام ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ’رس‘ کے لغوی معنی ہیں مٹھاس، شیرینی، خوشبو، لذّت--- لذّت کو شیریں بھی کہا گیا ہے اور ترش اور نمکین بھی۔ ہر رس کی طرح شرینگار رَس بھی حسن کا جوہر ہے، ذہنی یا جذباتی، تخیّلی اور حسّی سطحوں پر جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ بارہ ماسے میں عورت اپنے جمالیاتی تجربوں میں ڈوبتی ہے اور ان سے رس حاصل کرتی ہے۔ شرینگار رَس سے بھی جمالیاتی آسودگی اور جمالیاتی انبساط ملتا ہے۔ بارہ ماسے میں شرینگار رَس کے علاوہ ’رتی‘ (Rati)، رس (سیکس، عشق)بھی موجود ہے۔ اذیت کے لمحوں سے ٹپکتا ’شوک رس‘ (Shoka Ras) بھی ہے، محبوب کے کھو جانے کے خوف کا رس یعنی ’بھئے رس‘ (Bhaya Rasa) بھی ملتا ہے، ساتھ ہی تجسّس کا رس ’وس مایا (Vismaya Rasa)بھی موجود ہے۔ مجموعی طور پر یہ ’امرت رس‘ ہے:
تجھے اے سنگ دل ! کیسے پڑی چین
گئے ہیں تجھ بنا رووت مرے نین
-------
پیا بن ایکلی کیسے رہوں ری
قسم اوپر ستم کیسے سہوں ری
-------
اگھن دُکھ دے چلا اب کیا کروں ری
پیا بن اب تڑپتی ہی رہوں ری
ہندوستانی آرٹ میں بیانیہ کا سانچہ اہمیت رکھتا ہے۔ بارہ ماسہ بھی ایک بیانیہ ہے، یہ بیانیہ ایک کرداری ڈراما بھی ہے کہ جس میں مصوّری اور موسیقی کی ادائیں بھی موجود ہیں۔ بنیادی طور پر بارہ ماسہ روحانی تجربہ ہے، ایک سادھنا ہے، بدلتے موسم میں عورت کی جذباتی نفسیاتی کیفیتوں کا اظہار ہوتا ہے، فطرت یا نیچر کبھی پس منظر نہیں بنتا، ہمیشہ سامنے اور ساتھ ہوتا ہے۔ فطرت کا جلال و جمال اور عورت کی نفسیاتی کیفیتیں ایک وحدت بن جاتی ہیں۔ یہی جمالیاتی وحدت بارہ ماسہ کا سب سے بڑا حسن ہے۔ موسم عورت کے وجود میں جذب ہوتا رہتا ہے، عورت کا موڈ یا اس کی کیفیت اہمیت رکھتی ہے۔ موسم اور عورت دونوں ایک دوسرے کے حسن کو حاصل کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر موسم کی روشنی کا اثر عورت کی آواز اور اس کے لب و لہجے پر ہو رہا ہے، ’روشنی‘ (Light) اور ’آواز‘ (Sound) کی ہم آہنگی سے ہی روحانی تجربے میں اُٹھان پیدا ہوتی ہے۔ ’روشنی‘ عورت کی ’سائیکی‘ (Psyche) میں جذب ہو جاتی ہے تو آواز اور لب و لہجے سے بیانیہ کا حسن بڑھ جاتا ہے، ایک کرداری ڈرامے میں موسموں کی کیفیتیں مختلف رنگوں کے ساتھ جگمگانے لگتی ہیں۔ بادل، بارش، ہولی کے رنگ، گرمی کی تپش اور بیساکھ کی تپش میں محبوب کے ساتھ اندھیرے کمرے میں سونے کی خواہش، یہ سب عورت کی ’سائیکی‘ سے مختلف متحرک تصویروں کی صورت باہر نکلتے محسوس ہوتے ہیں۔
’بارہ ماسہ‘ میں ’فطرت‘ اور ’موسم‘ روشنی (Light) ہے کہ جس سے ہر چیز صاف دِکھائی دینے لگتی ہے، ’سوار‘ ہے یعنی چمکتے رہنے والے پیکر تو عورت کا وجود ایک نغمہ ہے جو جدائی کے غم اور فطرت اور موسم کے چمکتے پیکروں کی روشنی لیے ہوئے مختلف آہنگ کے ساتھ گونج رہا ہے۔ بارہ مہینوں میں موسم کے ذکر کے ساتھ اپنی باطنی کیفیتوں کے بیان کا احساس ملتا رہتا ہے۔ ہر مقام پر زندگی کا حسن ہے، زندگی کا شہد ہے، زندگی کی خوشبو ہے۔ موسم زندگی کا تجربہ بن جاتا ہے، ہر موسم عورت کے جذبات کا پہلو بن جاتا ہے۔ جمالیاتی وحدت کی یہ کیفیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ محبت پھیلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، روحانی تجربہ گہرا ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ موسم کے بیان میں اپنے تجربوں اور اپنی خواہشوں کو جذب کرتے ہوئے کئی ’رسوں‘ (Rasas) کی پہچان ہوتی ہے۔ اپنے گہرے غم اپنی بے چینی، اضطراب اور کشمکش کو لیے جو اپنی پریم بھگتی کا اتنا جاذبِ نظر ڈراما پیش کرتی ہے وہ عورت بنیادی طور پر اپنی سائیکی کے ’سرینگار رَس‘ میں ڈوبتی اُبھرتی نظر آتی ہے۔ اس ’رس‘ (Rasa) کا تعلق ’سوم رَس‘ سے ہے جو انتہائی لذیذ، خوشبودار اور سیّال غذائے ربّانی ہے، اسے نوش کر کے دیوتا حیاتِ جاودانی پاتے ہیں۔ رقص رسوں کا بنیادی سرچشمہ ہے، بارہ ماسوں میں عورت کے باطن میں وجود کی گہرائیوں میں رقص جاری ہے۔ شرینگار رَس بھی جلال و جمال اور ان کی وحدت کا احساس و شعور ہے، جلال و جمال اُن کے مظاہر اور ان کی وحدت کا نام ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ’رس‘ کے لغوی معنی ہیں مٹھاس، شیرینی، خوشبو، لذّت--- لذّت کو شیریں بھی کہا گیا ہے اور ترش اور نمکین بھی۔ ہر رس کی طرح شرینگار رَس بھی حسن کا جوہر ہے، ذہنی یا جذباتی، تخیّلی اور حسّی سطحوں پر جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ بارہ ماسے میں عورت اپنے جمالیاتی تجربوں میں ڈوبتی ہے اور ان سے رس حاصل کرتی ہے۔ شرینگار رَس سے بھی جمالیاتی آسودگی اور جمالیاتی انبساط ملتا ہے۔ بارہ ماسے میں شرینگار رَس کے علاوہ ’رتی‘ (Rati)، رس (سیکس، عشق)بھی موجود ہے۔ اذیت کے لمحوں سے ٹپکتا ’شوک رس‘ (Shoka Ras) بھی ہے، محبوب کے کھو جانے کے خوف کا رس یعنی ’بھئے رس‘ (Bhaya Rasa) بھی ملتا ہے، ساتھ ہی تجسّس کا رس ’وس مایا (Vismaya Rasa)بھی موجود ہے۔ مجموعی طور پر یہ ’امرت رس‘ ہے:
تجھے اے سنگ دل ! کیسے پڑی چین
گئے ہیں تجھ بنا رووت مرے نین
-------
پیا بن ایکلی کیسے رہوں ری
قسم اوپر ستم کیسے سہوں ری
-------
اگھن دُکھ دے چلا اب کیا کروں ری
پیا بن اب تڑپتی ہی رہوں ری
٭٭٭