صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


بڑا انسان

ظہیر اختر بیدری

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پاگل

آگرہ کے پاگل خانے میں جس مریض کو لایا گیا تھا وہ ایسی حیرت انگیز حرکتیں اور باتیں کر رہا تھا کہ سارے ڈاکٹر اور نرسنگ اسٹاف کو اس سے ایک خاص دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔اسے مقامی پولس کے دو سپاہی ہسپتال میں چھوڑ کر گئے تھے۔سپاہی ہری کرشن نے آر ایم او کو بتایا کہ یہ پاگل ہر آنے جانے والے کو پکڑ اس کا نام پوچھتا ہے۔ اگر کوئی اسے اپنا نام مرلی دھر بتاتا تو وہ ایک زور دار قہقہہ لگا کر کہتا۔
تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تمہارا نام مرلی دھر نہیں مولوی دلدار علی ہے اور اگر کوئی شخص اپنا نام عبدالقادر بتاتا تو وہ ایک زوردار قہقہہ لگا کر کہتا تم جھوٹ بول رہے ہو تمہارا نام پنڈت گوپی ناتھ ہے۔وہ کسی کو راکا ایجنٹ کہتا کسی کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہتا اور زور دار قہقہہ لگا کر آگے بڑھ جاتا وہ راستہ چلنے والی عورتوں کو روک کر کہتا۔
بہن جی ....میرا نام اسٹار پلس ہے میں نہ ہندو ہوں نہ مسلمان نہ سکھ نہ عیسائی میں مریخ سے آیا ہوں میرا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھ میں مستقبل میں جھانکنے کی شکتی ہے۔ میں تمھیں بتا سکتا ہوں کہ تم عنقریب بیوہ ہونے والی ہو۔ تمھارا شوہر ایک بم دھماکے میں مارا جائے گا۔
کسی عورت سے کہتا ہے .... ماں جی تمھارا بیٹا عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا۔ ہمیشہ کے لئے .... وہ کنٹرول لائن پر دھرتی کی رکشا کرتے ہوئے شہید ہو جائے گا۔ شہید .... ہا ہا ہا .... سیدھا سورگ میں جائیگا بس وہ اس قسم کی بے معنی باتوں سے پریشان تھے۔
سپاہی ہری کرشن نے بتایا .... یہ شخص کئی دن سے علاقے میں اسی قسم کی حرکتیں کر رہا ہے۔ جب اس کا نام پوچھا جائے تو وہ اپنا نام اسٹار پلس بتاتا ہے اور کہتا ہے مریخ سے آیا ہوں ۔
ہسپتال کے آر ایم او ڈاکٹر پر شانت نے جب اس سے پوچھا۔
تمہارا کوئی عزیز رشتہ دار ہے ؟تو اس نے ایک قہقہہ لگا کر جواب دیا۔
ڈاکٹر صاحب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگوں اور دہشت گردی کاروائیوں میں اب تک جتنے لوگ مارے گئے میں وہ سب میرے عزیز ہیں ۔ کوئی میرا باپ ہے کوئی ماں کوئی بھائی کوئی بہن کوئی بیٹا۔
تم رہتے کہاں ہو .... ڈاکٹر پرشانت نے جب پاگل سے سوال کیا تو اس نے ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
ڈاکٹر صاحب میں پہلے درختوں پر غاروں میں رہتا تھا۔ ننگا پھرتا تھا۔ لوگ مجھے اس زمانے میں وحشی کہتے تھے۔ وحشی اس لئے کہتے تھے کی میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے پرندوں اور جانوروں کا شکار کر کے ان کا گوشت کچا کھا جاتا تھا۔ لیکن میں کسی انسان کو نہیں مارتا تھا۔ خواہ بھوک سے میرا کتنا ہی برا حال کیوں نہ ہو .... لیکن میں اب دنیا کے ہر شہر میں رہتا ہوں بہترین کپڑے پہنتا ہوں ۔شاندار مکان میں رہتا ہوں ۔ میرے پاس ہر موڈل کی گاڑیاں ہیں مجھے زندگی کی ہر آسائش حاصل ہے میں اب دنیا کا ایک مہذب انسان ہوں ۔ میں ہتھیار بنانے کے لئے کار خانوں کا مالک ہوں ۔ میں سای دنیا کو ہتھیار سپلائی کرتا ہوں ۔
ڈاکٹر صاحب کوریا کی جنگ میں میں نے ہی جدید ترین ہتھیار سپلائی کیے۔ جرمنی کے دو حصہ میں میں نے ہی کئی۔ ویت نام کی جنگ میں میرے ہی کارخانوں کا بنا ہوا ہتھیار استعمال ہوا۔ ہاں ایک بات اور بتاؤں ۔ مگر آپ کسی سے اس کا ذکر نہ کریں ۔ میں آپ کو اپنا آدمی سمجھ کر بتا رہا ہوں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر جو بم گرائے گئے تھے وہ میرے ہی بنائے ہوئے تھے۔ آہا ہا ہا .... ڈاکٹر صاحب یہ بات آپ کسی کو بتانا نہیں ۔ میں ایک مہذب انسان ہوں ۔ میں اب نہ درختوں پر رہتا ہوں نہ غاروں میں میں اب اوون میں روسٹ کی ہوئی مرغی کھاتا ہوں ۔ کچا گوشت نہیں کھاتا ....میں دنیا کے بہترین ڈیزائن میکروں سے اپنا لباس سلواتا ہوں ۔
جانے اور کیا کیا بکواس وہ کرتا رہا ....ڈاکٹر پرشانت نے جو ابھی نیا نیا ہسپتال میں آیا تھا اس پاگل کی باتیں سن کر ہنستا رہا اور آخر اس نے پاگل کو نیند کا ایک انجکشن لگا دیا تھوڑی ہی دیر بعد پاگل خراٹے لینے لگا۔
صبح نو بجے جب پروفیسر رام سہائے ہسپتال آئے تو ڈاکٹر پرشانت نے ایک فائل ان کے سامنے رکھی۔ پرو فیسر رام سہائے نے بڑے غور سے فائل میں دی گئی تفصیلات کے بارے میں پڑھا.... اور ایک زور دار قہقہہ لگایا۔  (نا مکمل)
٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں    

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول