صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
نواب بنڈی والا
(بچوں کاناول)
وکیل نجیب
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نواب بنڈی والا
دونوں بیلوں کی رسیّاں تھام کر اُس نے اُنھیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ تھوڑی سی کوشش سے بیل آگے بڑھنے لگے۔ بازار کی حد سے نکل کر بیل کولتار سے بنی سڑک پر آگئے ، تھوڑی دیر میں وہ ریلوے کراسنگ پر آگئے۔ کوئی گاڑی آنے والی تھی۔ اس کا پھاٹک بند تھا۔ بہت سے ٹرک، گاڑیاں اور ہاتھ ٹھیلے پھاٹک کے کھلنے کا انتظار کرتے کھڑے تھے۔ نواب بھی اپنے دونوں بیلوں کو لے کر سڑک کے کنارے کھڑا ہوگیا۔ سائیکل والے اور اسکوٹر والے اپنی گاڑیوں کو آڑے لگے ہوئے لوہے کے ڈنڈے سے نکال کر لے جآ رہے تھے۔ جہاں نواب اپنے دونوں بیلوں کو لے کر کھڑا تھا، اُس کی دا ہنی طرف ایک ٹرک تھا اور بائیں طرف اُس کے جانور کھڑے تھے، اس کے بازو میں بائیں طرف ایک گڑھا سا تھا کہ کسی گاڑی کے نکلنے کی جگہ نہیں تھی۔ تبھی پیچھے سے ایک نوجوان ہیرو ہونڈا گاڑی پر سوار نواب کے پیچھے آیا اور زور زور سے ہارن بجانے لگا۔ نواب کو نہ تو خود ہٹنے کی جگہ تھی اور نہ ہی اُس کے بیل کہیں سرک سکتے تھے۔ اُس نوجوان کو آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ملا تو اُس نے اپنی گاڑی سڑک کے بازو کے گڑھے میں اتار دی لیکن وہ گاڑی سنبھال نہیں پایا اور گاڑی لے کر گِر گیا۔ سب لوگ اُسے دیکھ کر ہنسنے لگے۔ بڑی مشکل سے وہ اُٹھا اور کافی طاقت لگا کر وہ اپنی گاڑی اُٹھا سکا۔ اُس نے گاڑی اسٹینڈپر کھڑی کردی، اور نواب کی طرف آیا اور اُسے گالیاں دینے لگا۔ نواب نے کہا ’’ہٹنے کی کوئی جگہ نہیں ہے، میں کدھر سرکتا‘‘ نوجوان نے جوش میں آکر نواب کا گریبان پکڑلیا اور چاہتا تھا کہ نواب کو ایک طمانچہ ماردے لیکن اِس سے بھی پہلے کتھئی رنگ کے بیل نے جو اپنی گردن گھمائی تو اس کے نوکیلے سینگ نوجوان کے پیر پر لگے جھٹکا اتنا شدید تھا کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا ،جاکر اپنی گاڑی پر گِر ا اور گاڑی سمیت گڑھے میں گر گیا۔ بیل کی سینگ لگنے سے اس کی پینٹ بھی پھٹ گئی تھی۔ یہ دیکھ کر لوگ اور ہنسنے لگے۔ اب تو نوجوان کا غصّہ کے مارے بُرا حال ہوگیا۔ اُس نے وہیں سے ایک پتھراُٹھایااور پوری طاقت سے نواب کو مارا۔ نواب نے پتھر کی زد سے اپنے آپ کو بچالیا۔ پتھر جاکر بازو میں کھڑے ہوئے ٹرک کی کھڑکی کی کانچ سے ٹکرایا۔ کانچ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر سڑک پر گِر پڑی۔ یہ دیکھ کر ٹرک ڈرائیور نیچے اُترا اور اُس نے نوجوان کا گلا پکڑ لیا اور اُس سے اپنے نقصان کے پیسے مانگنے لگا۔ اُسی دوران ٹرین وہاں سے گذری اور پھاٹک کھل گیا۔سامنے کے لوگوں نے اپنی اپنی گاڑیاں آگے بڑھائیں اور نواب بھی اپنے بیلوں کو لے کر نکل گیا۔ یہاں نوجوان اور ٹرک والے میں توتو میں میں ہو رہی تھی۔
نواب اپنے بیلوں کو ہانکتا ہوا کلمنا بستی کے آگے کی پلیا پر پہنچاہی تھا کہ پیچھے سے نوجوان تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے آیا اور نواب کے سامنے گاڑی کھڑی کرکے کھڑا ہوگیا اور نواب سے کہا’’تیری وجہ سے میں گاڑی سے گِرا، میری پینٹ پھٹی اور ٹرک والے کو پیسے دینے پڑے۔ مجھے یہ رقم واپس کر نہیں تو میں تجھے جانے نہیں دوں گا۔ چل میرا نقصان پورا کر پیسے نکال۔
نواب نے کہا’’بھیّا، میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور میری وجہ سے تمھارا کوئی نقصان نہیں ہواہے، میں تمھیں پیسے کیوں دوں؟‘‘
نوجوان نے کہا’’پیسے تجھے دینے پڑیں گے، ورنہ میں یہ جانور تجھے لے جانے نہیں دوں گا۔‘‘ اتنا کہہ کر اُس نے بیلوں کی رسّیاں نواب کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ نواب نے اُس کے ہاتھوں سے رسّی لینے کی کوشش کی تو اس نے نواب کے منھ پر ایک گھونسہ مار دیا ۔ نواب نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو گرنے سے بچایااور پھر سے نوجوان کے ہاتھ سے رسّیاں لینے کے لئے اُس کی طرف بڑھا۔ نوجوان اُس کی طرف بڑھا۔ نوجوان نے اُسے مارنے کے لئے دوسری بار گھونسہ تانا۔ بس اُسی لمحہ کتھئی رنگ کے بیل نے ایک جھٹکے سے اپنی رسّی چھڑالی اور اپنی دونوں سینگوں سے اُٹھا کر نوجوان کو زور سے اُچھال دیا، نوجوان ہوا میں لہراتا ہوا نالے میں جاگِرا۔ نالے میں تھوڑا پانی تھا۔اُس کے پورے کپڑے کیچڑ میں لت پت ہوگئے۔ کسی طرح وہ نالے سے نکل کر پھر سڑک پر آگیا اور نواب کو گندی گندی گالیاں دینے لگا۔ وہ پھر نواب کی طرف آگے بڑھا۔ تبھی کتھئی رنگ کے بیل نے نوجوان کی طرف دوڑنا شروع کیا۔ نوجوان نے بیل کو اپنی طرف آتے دیکھا تو بے تحاشہ ایک سمت بھاگنے لگا۔ اب نوجوان آگے آگے اور بیل اُس کے پیچھے پیچھے چلا جآ رہا تھا۔ ببول کی جھاڑیوں کو پھلانگتاہوا نوجوان جب بہت دور نکل گیا تو بیل واپس آیااور نواب کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ نوجوان کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ نواب نے دونوں بیلوں کی رسّیاں تھامیں اور تیزی سے آگے بڑھا۔ ۔ پیچھے مُڑ مُڑ کر دیکھتا بھی جاتا تھا کہ کہیں نوجوان پیچھے تو نہیں آ رہا ہے لیکن پھر نوجوان واپس نہیں آیا۔ چار بجے کے قریب وہ گھر پہنچ گیااور گھر کے سامنے بیلوں کوباندھنے کا جو کھونٹا تھا نواب نے دو الگ الگ کھونٹوں سے بیلوں کو باندھ دیا اور اپنی والدہ کو جاکر بتایاکہ اُسے بیل مل گئے ہیں۔ اُس کی امّی گھر سے نکل کرآئیں۔ انھوں نے بیلوں کو دیکھا،پھر اندر سے کچھ بھوسی اور گھاس بیلوں کے سامنے لاکر ڈالدی۔نواب کے گھرسے لگا ہوا ایک پرانا کنواں تھا۔ نواب نے بالٹی سے پانی کھینچا اور دونوں بیلوں کے سامنے پانی کی بالٹی رکھ دی۔
نواب نے اپنی امّی سے کہا’’ امّی میں خالو جان کو فون کرکے بتا دیتا ہوں کہ بیل مجھے مل گئے ہیں۔‘‘
نواب کی امّی نے کہا’’ٹھیک ہے جاؤانھیں بتا دو اور ان کا شکریہ بھی ادا کردینا۔‘‘
’’جی امّی!‘‘ اتنا کہہ کر نواب وہاں سے چلا گیا۔
پاس کی ایک دوکان سے اُس نے ٹیلی فون کیا۔ فون اُس کے خالو نے ہی اٹھایا۔
نواب نے اپنے خالو کو سلام کیا اور کہا’’خالو جان مجھے بیل مل گئے ہیں دونوں بیل بہت اچھے ہیں !‘‘
ہاں ٹھیک ہے۔ دلال نے بھی مجھے فون پر خبر دے دی ہے۔ بیٹا بڑی ہوشیاری سے کام کرنا۔ جلد بازی میں کچھ غلط کام نہیں کرنے لگنا۔
’’جی بہت اچھاخالو جان!‘‘
اور دیکھوتمھارے چچا کا مجھے فون آیا تھا،اُن کا قرض پہلے ادا کرنا، اُن کی نیّت تمھارے مکان پر لگی ہوئی ہے۔ جیسے ہی پیسے تمھارے پاس آئیں پہلے اُن کا قرض ادا کر دینا اور خبر دار کسی کاغذ پر اُنھیں کچھ لکھ کر مت دینا اور نہ ہی ان کے کسی کاغذ پر دستخط کرنا۔ ان کی نیت کچھ ٹھیک نظر نہیں آ رہی ہے۔
’’جی ہاں خالو جان، بار بار وہ اپنے پیسوں کا ذکر کرتے ہیں۔ میں ان کا قرض پہلے ادا کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹا۔ محنت اور ایمانداری سے کام کروہر مشکل آسان ہو جائے گی۔ اچھا فون رکھتا ہوں‘‘
اتنا کہہ کر اُنھوں نے فون رکھ دیا نواب وہاں سے گھر آیا۔ شام ہو چکی تھی۔ اُس کی امّی کھانابنا چُکی تھیں؟ اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھ کر اُس نے کھانا کھایا۔ اپنے چچاکی بات اُس نے اپنی امّی کو نہیں بتائی۔
کھانا کھاکر بیٹھا ہی تھا کہ باہر سے کسی نے اس کا نام لے کر آواز لگائی۔ وہ باہر آیا تو اُس نے دیکھا ،پڑوس کے ایک آدمی اس کے گھرکے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ نواب نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے نواب سے کہا۔
’’نواب! اِیرکھیڑا میںہمارا نیا گھر بن کر تیار ہوگیا ہے اگر تمھاری بیل گاڑی ٹھیک ہوگی تو سارا گھر کا سامان وہاں پہنچا دو۔‘‘
نواب نے کہا’’ہاں کیوں نہیں میری گاڑی تیار ہے لیکن سامان چڑھانے اور اُتارنے کا مسئلہ ہے۔‘‘
انھوں نے کہا’’یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، میرے لڑکے ہیں نا۔وہ سامان چڑھا بھی دیں گے اتار بھی دیں ‘‘گے۔
ٹھیک ہے چچا چلیے میں آپ کے ساتھ چل رہا ہوں۔
اتنا کہہ کر وہ گھر میں گیااور اپنی والدہ کو بتایا کہ وہ پڑوس کے انصاری بابو کا سامان ایر کھیڑا پہنچا نے جا رہا ہے ۔
اُس کی امّی نے کہا’’ٹھیک ہے بیٹا آرام سے جانا اور احتیاط سے گاڑی چلانا۔ بیل ابھی نئے ہیں۔‘‘
’’جی امّی آپ بے فکر رہیں، میں بہت آرام سے گاڑی چلاؤں گا‘‘
اُسی وقت اُس نے دونوں بیلوں کو گاڑی میں جوتا۔ رسّی اپنے ہاتھوں میں تھام لی اور بیلوں کو ہانکتاہوا انصاری بابو کے گھر کی جانب لے کر چلا۔