صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بہنوں کے لیے تحفہ
امل بنت عبداللہ،ترجمہ: نعیم احمد بلوچ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
اس کا چہرہ ہمیشہ کھلی کتاب تھا اور آج بھی یہی کیفیت تھی، مگر پہلے وہاں اطمینان، اعتماد اور معصومیت کی خوبصورتی رقم دکھائی دیتی تھی اور آج۔۔۔ آج یہ سب کچھ غائب تھا۔۔۔ اس کے بجائے غم، دکھ، کرب اور اضطراب کے آثار واضح تھے ۔
اچھا معلم، وہی ہوتا ہے جو کتاب کی طرح شاگرد کا چہرہ بھی پڑھنا جانتا ہو اور الحمد للہ یہ عنایت، اللہ نے مجھ پر بھی کر رکھی تھی اور بھلا میں فائزہ کا چہرہ پڑھنے میں غلطی کیسے کرسکتی تھی!
دوران ِ سبق میں نے اسے ذہنی طور پر غیر حاضر پایا اور مجھے کئی موقعے ایسے ملے تھے کہ میں سبق کے متعلق اس سے کوئی سوال پوچھتی اور اس کی خاموشی اس کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتی، مگر میں ان اساتذہ میں سے نہیں جو اپنے شاگردوں کو سزا کے چابک سے آگے بڑھاتے ہیں۔ میرے خیال میں شاگرد کی غفلت دور کرنے کے لیے پہلے اس کی غفلت کا سبب جاننا ضروری ہے ۔ تبھی اس کے لیے کوئی مناسب علاج تجویز کیا جا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کلاس کی دوسری طالبات کے سامنے فائزہ سے کوئی سوال نہ پوچھا۔ کلاس ختم ہونے کے بعد میں نے اسے اپنے کمرے میں بلایا اور ہمدردی سے پوچھا:
’’لگتا ہے آج ہماری ہونہار شاگردہ کچھ پریشان پریشان سی ہے ۔۔۔ خیریت تو ہے ؟ ‘‘
وہ قدرے خاموشی کے بعد بولی: ’’نہیں، سبق کے متعلق کوئی پریشانی نہیں ہے !‘‘
اس موقعے پر اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی، مگر چہرے نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ میں نے کہا:
’’نہیں بیٹی فائزہ، سبق تو آپ سے دھیان سے سناہی نہیں گیا، اس لیے اس کے متعلق کسی سوال کے پیدا ہونے کے کیا معنی۔۔۔ میں تو وہ وجہ جاننا چاہتی ہوں جس نے تمہارے چہرے سے سکون چھین کر تمہیں عجیب اذیت سے دوچار کر دیا ہے ۔‘‘
اس دفعہ وہ خاموش رہی۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ الفاظ اس کی نوک ِ زبان پر آ رہے ہیں لیکن وہ آپس میں گڈ مڈ ہو رہے ہیں۔ میں اپنی کرسی سے اٹھی اور اس کے سر پر محبت بھرا ہاتھ رکھ کر بولی:
’’بیٹی، تم مجھے اپنا ہمدرد پاؤ گی، بہترین راز داں پاؤ گی، بولو۔۔۔ تاکہ تمہارا غم ہلکا ہو۔‘‘
اس دفعہ اس کی آنکھوں سے دو آ نسو ٹپ ٹپ میز کے صاف شفاف شیشے پر گر پڑے ۔ اس نے لمحے بھر کو نظریں اُٹھا کر پھر جھکا لیں اور بمشکل بولی: ’’میں۔۔۔ بھلا وہ سب کچھ کیسے بتا سکتی ہوں۔۔۔ مجھے ۔۔۔‘‘
’’حیا آڑے آتی ہے ۔۔۔‘‘ میں نے اس کا ادھورا جملہ مکمل کیا۔۔۔ اور ایک دفعہ پھر اس کے سر پر محبت بھرا ہاتھ رکھ کر کہا:
’’فائزہ بیٹی، میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ تمہاری بات سہیلی بن کر سنوں گی اور تمہارا مسئلہ ایک ماں بن کر سلجھاؤں گی۔۔۔ تم کہو تو سہی!‘‘
میری ڈھارس اسے اپنے راز سے پردہ ہٹانے میں کامیاب نظر آ رہی تھی۔ چند لمحوں کے بعد آخر وہ بولی: ’’یہ ایک تقریب کی بات ہے ، کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ میری اُس سے بات ہو گئی۔۔۔‘‘
یہاں تک کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گئی۔ اس کا چہرہ حیا سے سرخ ہو گیا۔ میں نے پھر اس کی ہمت بندھائی تو وہ دوبارہ بولی:
’’اُس کی گفتگو بڑی مہذب اور دل کش تھی۔ اس میں خلوص جھلکتا تھا اور یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے اپنا دل اس کی طرف مائل محسوس ہونے لگا، مگر میں نے اس سے ایسی کوئی بات نہ کہی جس سے میری اِ س کیفیت کا اظہار ہوتا ہو۔۔۔‘‘
وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوئی تو میں نے کہا: ’’اور اِ س کے بعد تمہیں اُس کا فون آیا ہو گا!‘‘
میری یہ بات سن کر وہ بھونچکا رہ گئی۔۔۔ تھوک نگلتے ہوئے بمشکل یہی الفاظ ادا کرسکی: ’’آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ ‘‘
میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’’اس کے بعد یوں ہی ہوتا ہے پیاری بیٹی۔ تمہارے ساتھ ہرگز کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہوا۔ تم بے دھڑک پوری بات بتاؤ!‘‘
میرے اس جملے نے میرے متعلق اس کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا۔۔۔ وہ کہنے لگی:
’’اس ٹیلی فون کے بعد وہ روزانہ فون کرنے لگا۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی گفتگو میں مجھے کوئی خرابی نہیں لگتی ، بلکہ وہ ایک بھلا آدمی ہی محسوس ہوتا تھا۔ ۔ ۔ پھر ایک دن اُس نے کھلے لفظوں میں مجھ سے اپنی دلی وابستگی کا اظہار کر دیا۔۔۔ میں نے بھی کہا کہ ایسے ہی جذبات میں اس کے لیے محسوس کرتی ہوں ۔ اس کے بعد ہم ٹیلی فون پر رات گئے تک لمبی لمبی گفتگو کرتے ۔۔۔‘‘
٭٭٭