صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
بہاروں کو لوٹنا ہو گا
ون اردو رائٹرس سوسائٹی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
الماس فون رکھ کر پلٹیں تو انہوں نے برگیڈیئر زبیر خان کو اپنی طرف بغور
دیکھتے پایا۔ ان کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔
"کس کا فون تھا بیگم؟" ان کی مسکراہٹ ان کے انجان بننے کی کوشش کو ناکام کر رہی تھی۔
"آپ کی لاڈلی بہو کا فون تھا۔۔۔۔پوچھ تو ایسے رہے ہیں جیسے پتا نا ہو۔" الماس کیتلی میں چائے کا پانی رکھتے ہوئے مسکرائیں۔
"کیا فرما رہی تھیں ہماری پیاری، لاڈلی، بڑی بہو؟" برگیڈیئر زبیر نے عینک اتار کر کچن کاؤنٹر پر رکھی اور اخبار تہہ کرنے لگے۔
"وہ اصل میں ارسلان کا۔ ۔۔۔" وہ کچن میں داخل ہوتی ثانیہ کو دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔
"السلام علیکم بابا ، السلام علیکم ماما" وہ زبیر خان کے آگے پیار لینے کو جھکی پھر بڑھ کر ساس کے گال پر بوسہ دیا۔
"وعلیکم السلام ، جیتی رہو۔۔۔۔" دونوں نے بیک وقت جواب دیا تھا۔
"کیا بن رہا ہے ماما۔ ۔۔۔" ثانیہ نے ڈھکن اٹھا کر کڑھائی میں جھانکا۔
"بیٹا، یہ آپ کے بابا کی فرمائش پر کلیجی فرائی کی تھی اور ساتھ میں سوجی کا حلوہ۔۔۔۔ ناظم دہی لیکر آتا ہے تو پراٹھے بناتا ہے۔"
"بابا
آپ کی وجہ سے ہمارے بھی مزے ہیں، مگر آپ کو تو یہ نہیں کھانا چاہئے۔
کولسٹرول ہائی ہوتا ہے اس سے۔۔۔۔" ثانیہ نے سسر کو یاد دلانا ضروری سمجھا۔
"یک نہ شد دو شد۔۔۔۔ ارے بھئی ابھی آپ کی ماما سے بھی اسی موضوع پر لیکچر سن کر بیٹھا ہوں۔" زبیر خان خوشدلی سے بولے۔
٭٭
٭٭٭