صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


اقبال ریویو
 بہادر یار جنگ نمبر

مدیر: محمد امتیاز الدین

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

بہادر یار جنگؒ اور اقبال

نظر حیدرآبادی


بہادر خاں  نے  بہت کم عمر پائی تھی، ۱۹۰۵ء  میں  پیدا ہوئے  ۱۹۴۴ء میں اس فانی زندگی کے  علائق سے  چھٹ کر ایک غیر فانی زندگی سے  ہم کنار ہو گئے  یعنی اس چمن کے  مقدر میں  پوری چالیس بہاریں  بھی نہیں  لکھی تھیں، لیکن اس مختصر سی زندگی میں  کیسے  کیسے  کا رہائے  نمایاں  ان کے  ہاتھوں  انجام پا گئے  اسی تھوڑی سی مدت میں  انہوں  نے  امارت کے  آغوش میں  پل کر اس کی کثافتوں  سے  نجات بھی حاصل کر لی۔ عالمِ اسلام کی سیاحت بھی کی اور حجِ بیت اللہ اور روضۂ نبویؐ کی زیارت سے  بھی مفتخر ہوئے۔ اور اس سیاحت کا حاصل ہندوستان آ کر اس طرح پیش کیا کہ خواجہ حسن نظامی ؔ کو لکھنا پڑا۔

’’  موجودہ زمانے  میں  بہت سے  مسلمانوں  نے  اسلامی ممالک کی سیر کی اور سفر نامے  لکھے، جن  میں  سے  ایک میں  بھی ہوں  اور مرحوم مولانا شبلی ؔ بھی ہیں  اور محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار بھی ہیں  اور بھوپال کے  ایک مسلمان بھی ہیں  جنہوں  نے  اسپین کا بہت اچھا سفر نامہ لکھا ہے  اور مرحوم حافظ عبدالرحمن امرتسری بھی ہیں، ان کے  علاوہ اور بھی بہت سے  ہیں  لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہیں  ہے  جس نے  ایک ہی وقت میں  تمام اسلامی دنیا کے  ملکوں  اور قوموں  کو دیکھا ہواور معاشرتی

 مقاصد سامنے  رکھ کر دیکھا۔ اس لحاظ سے  نواب بہادر یار جنگ سب سیاحوں  سے  اعلیٰ ہیں۔ ‘‘

اس سیاحت کے  بعد تن آسانی سے  اتنی سرگرانی بڑھی کہ جنگل جنگل کی خاک چھانی اور پانچ ہزار نفوس کو مشرف بہ اسلام کیا، سیاست کی دنیا میں  قدم رکھا تو اپنی اصابتِ رائے، جوشِ خطابت اور خلوصِ کار کی وجہ سے  اسلامیانِ ہند کی تمناؤں  کے  ترجمان اور امیدوں  کے  مرکز بن گئے  چنانچہ عبدالماجد دریا بادی کو اعتراف کرنا پڑا کہ

’’ہندوستان نے  اگر دوسرا محمد علی پیدا کیا ہوتا تو وہ یہی تھا، وہی اخلاص، وہی دینی جوش،وہی تڑپ، وہی سوجھ بوجھ، وہی نبض شناسی، وہی ہمت و عزم،بجز محمد علی کی انگریزی انشا پردازی کے  سب کچھ وہی۔ ‘‘

شعرو ادب سے  خلقی ربط رکھتے  تھے  اور بڑے  خلیق انسان تھے۔ اسی لئے  خلقؔ تخلص اختیار کیا اور اپنی شعر فہمی اور سخن سنجی کا لوہا اس طرح منوایا کہ ان کے  انتقال کے  کئی برس بعد ’’ستائش کی تمنا ‘‘ اور ’’صلے  کی پروا‘‘ کیئے  بغیر رئیس التغزلین حضرت جگر ؔ مراد آبادی نے  اپنے  نئے  مجموعہ کلام ’’آتش گل‘‘ کو ان الفاظ کے  ساتھ ان کے  نام سے  معنون کیا۔

’’میں  اپنے  اس مجموعہ کلام کو قائد ملت مولوی بہادر خان مرحوم سابق نواب بہادر یار جنگ کے  نام نامی سے  منسوب کرنا اپنا اخلاقی و ادبی فرض تصور کرتا ہوں، جو سراپا گداز، مجسم اخلاص فقید المثال مقرر، کامیاب مصلح، اپنے  وقت کے  عظیم المرتبت خطیب اور ایک جری انسان تھے۔ جن کے  گفتارو کردار میں  کوئی تضاد نہ تھا۔

وہ بیک وقت تمام محاسنِ شعری کا احاطہ کر لیتے  تھے  اور اچھے  شعر سے  اتنی شدت کے  ساتھ متاثر ہوتے  تھے  کہ میں  نے  اپنی پوری زندگی میں  ایسا کوئی دوسرا خوش مذاق نہیں  دیکھا۔ خدائے  رحمان و رحیم ان کی روح کو اپنا قربِ خاص عطا فرمائے۔ ‘‘

اسی شعر فہمی اور سخن سنجی نے  ان کو پہلے  پہلے  فکر اقبال کا مرتبہ دان بنایا اور آخر آخر میں  عارفؔ ہندی ان کے  مرشد معنوی بن گئے۔

اقبال سے  بہادر یا جنگ کی ملاقاتوں  اور روابط کی تفصیلات تو انہیں  کے  ساتھ دفن ہو گئیں  اور مراسلات بھی انقلابِ حیدرآباد کے  وحشت ناک دور میں  ضائع ہو گئے  صرف ایک خط حاصل ہو سکا جو اقبال نے  کشمیری مسلمانوں  کی امداد کے  سلسلہ میں  ان کو ۱۹۳۱ء میں  لکھا تھا، یہ خط اسی کتاب کے  حصہ مکتوبات میں  شامل ہے۔ اس ایک خط کے  مطالعہ سے  بھی دونوں  کے  روابط کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔

گمان غالب یہ ہے  کہ اقبال سے  ان کی پہلی ملاقات ۱۹۲۹ء میں  ہوئی ہو گی۔ کیونکہ یہ زمانہ بہادر خان کے  سنِ شعور کا تھا اور وہ مہاراجہ کشن پرشاد کی محفلوں  میں  باقاعدہ اور بالالتزام شرکت کرنے  لگے  تھے، اقبال ۱۹۲۹ء میں  دوسری بار حیدرآباد گئے  تھے  اور ان کے  اعزاز میں  مہاراجہ نے  بڑی شاندار دعوتیں  کی تھیں  اور ایک تاریخی مشاعرہ بھی منعقد کیا تھا، انہیں  دعوتوں  میں  بہادر خاں  اقبالؔ سے  متعارف ہوئے  ہوں گے۔ ایک اقدارِ اسلامی کے  احیاء کا داعی تھا اور ایک خدمتِ اسلام کے  جذبات سے  سرشار،یہی وجہ تھی کہ دونوں  کے  مراسم میں  استحکام پیدا ہوتا گیا اور آپس میں  خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری ہو گیا، مشوروں  اور مذاکروں  کی صورت بھی پیدا ہوئی اور اس طرح ایک نکتہ رس کو ایک دانائے  راز کی قربت کا شرف بھی حاصل ہو گیا اور اسی قربت نے  بہادر خاں  کو شانِ امارت سے  بے  نیاز اور سراپا ایثار مجسم عمل بنا دیا۔ اقبال سے  ان کی ملاقاتوں  کے  سلسلہ میں  ایک اشارہ سا ان کی اس تقریر میں  ملتا ہے  جو انہوں  نے  اقبال کے  جلسۂ تعزیت میں  کی تھی۔ فرماتے  ہیں  

’’میر ے  نالے  فضائے  حیدرآباد سے  کچھ اس طرح ناآشنا ہو چکے  تھے  کہ مجھے  یاد بھی نہ تھا کہ آج تقریر کرنی ہے، آج سے  ڈیڑھ سال قبل علامہ اقبال کی زندگی میں  اقبال کے  تصور مومن کو پیش کر کے  خود ان سے  داد حاصل کی تھی۔ اور آج ان کے  انتقال کے  بعد مختصراً اپنا تحفۂ عقیدت ان کی سرمدی اور ابدی دعاؤں  کی امید پر پیش کر رہا ہوں۔ ‘‘

خط و کتابت کے  تعلق سے  ایک بات قابل غور ہے  اور وہ یہ کہ دونوں  میں  مراسلت کا سلسلہ ۱۹۳۱ء کے  بعد شروع ہوا، کیونکہ اقبال کا جو خط ہمیں  حاصل ہو سکا ہے، وہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے  ذریعہ بھیجا گیا اور اس کی وجہ اقبال نے  یہ لکھی ہے  کہ نواب صاحب کا پتہ انہیں  معلوم نہیں۔ ظاہر ہے  کہ اگر اس سے  پہلے  دونوں  میں  خط و کتابت ہوتی تو ان کا پتہ بھی اقبال ؔ کے  پاس ضرور ہوتا۔ یہی بات اس لئے  قریبِ قیاس معلوم ہوتی ہے  کہ بہادر خاں  کی عملی جدوجہد کا آغاز بھی اسی زمانے  میں  ہوتا ہے  اور اسی زمانے  میں  ان کے  کردار اور گفتار کے  چرچے  حیدرآباد کی سرحدوں  سے  باہر پہنچنے  لگے  تھے، ۱۹۲۹ء میں  وہ ایک خوش پوش اور سخن سنج حیدرآباد ی نواب کی حیثیت سے  اقبال سے  ملے  ہوں  گے  لیکن ۳۱ء کے  بعد جیسے  جیسے  ان کی قومی خدمات کی شہرت اقبال تک پہنچنے  لگی ہو گی ویسے  ویسے  قدرتاً یہ رسمی تعارف مستحکم دوستی میں  مبدل ہو گیا ہو گا۔ کلامِ اقبال سے  ان کو ایسا  شغف تھا کہ اس کی تشریح و توضیح کے  لئے  انہوں  نے  اپنے  گھر میں  حلقۂ  درسِ اقبال بھی قائم کیا تھا، اور عجیب اتفاق ہے  کہ اسی حلقے  کے  درس سے  اٹھ کر وہ اپنے  ایک عزیز دوست ہاشم یار جنگ کے  ڈنر میں  گئے  اور کھانے  سے  پہلے  ڈاکٹر رضی الدین صدیقی اور سکندر علی وجد ؔ سے  اقبال کے  اس شعر

ہر اک مقام سے  آگے  مقام ہے  تیرا

حیات ذوقِ سفر کے  سوا کچھ اور نہیں

کے  بارے  میں  اپنے  تاثرات کا اظہار کر رہے  تھے  کہ حقہ کے  پہلے  ہی کش کے  ساتھ ایک ہچکی آئی اور ان کی روح قفسِ عنصری سے  پرواز کر گئی۔

گویا شاہینِ بلند پرواز کا ’’ذوقِ سفر‘‘ اسے  ’’ ہر اک مقام سے  آگے  ‘‘ لے  کر چلا گیا۔ !

مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں  ہو ترا


*****


ماخوذ از ’’اقبال اور حیدرآباد، مرتبہ نظر حیدرآبادی۔ ناشر:اقبال اکاڈمی کراچی۔ اپریل ۱۹۶۱ء

٭٭٭٭


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول