صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


باغ و بہار

میر امّن


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

سیر پہلے درویش کی

پہلا درویش دو زانو ہو بیٹھا اور اپنی سیر کا قصہ اس طرح سے کہنے لگا۔ یا معبود اللہ! زرا ادھر متوجہ ہو، اور ماجرا اس بے سروپا کا سنو!

یہ سر گزشت میری ذرا کان دھر سُنو!

مجھ کو فلک نے کر دیا زیر و زبر سُنو!

جو کچھ کہ پیش آئی ہے شدت مری تئیں

اُس کا بیان کرتا ہوں تم سر بہ سر سُنو!

اے یاران! میری پیدایش اور وطن بزرگوں کا ملکِ یمن ہے۔ والد اس عاجز کا ملک التجار خواجہ احمد نام بڑا سوداگر تھا۔ اس وقت میں کوئی مہاجن یا بیپاری ان کے برابر نہ تھا۔ اکثر شہروں میں کوٹھیاں اور گُماشتے خرید و فروخت کے واسطے مقرر تھے، اور لاکھوں روپے نقد اور جنس ملک ملک کی گھر میں موجود تھی۔ اُن کے یہاں دو لڑکے پیدا ہوئے، ایک تو یہی فقیر جو کفنی سیلی پہنے ہوئے مرشدوں کے حضوری میں حاضر اور بولتا ہے، دوسری ایک بہن جس کو قبلہ گاہ نے اپنے جیتے جی اور شہر کے سوداگر بچے سے شادی کر دی تھی۔ وہ اپنی سُسرال میں رہتی تھی۔ غرض جس کے گھر میں اتنی دولت اور ایک لڑکا ہو، اُس کا لاڈ پیار کا کیا ٹھکانا ہے؟ مجھ فقیر نے بڑے چاؤ چوز سے ماں باپ کے سائے میں پرورش پائی اور پڑھنا لکھنا سپاہ گری کاکسب و فن، سوداگری کا بہی کھاتہ، روزنامہ، سیکھنے لگا۔ چودہ برس تک نہایت خوشی اور بے فکری میں گزرے، کچھ دُنیا کا اندیشہ دل میں نہ آیا۔ یک بہ یک ایک ہی سال میں والدین قضائے الٰہی سے مر گئے۔

عجب طرح کا غم ہوا، جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ ایک بارگی یتیم ہو گیا۔ کوئی سر پر بوڑھا بڑا نہ رہا۔ اس مصیبتِ ناگہانی سے رات دن رویا کرتا، کھانا پینا سب چھوٹ گیا۔ چالین دن جوں توں کر کٹے، چہلم میں اپنے بیگانے چھوٹے بڑے جمع ہوئے۔ جب فاتح سے فراغت ہوئی، سب نے فقیر کر باپ کی پگڑی بندھوائی، اور سمجھایا۔ دُنیا میں سب کے ماں باپ مرتے آئے ہیں، اور اپنے تئیں بھی ایک روز مرنا ہے۔ پس صبر کرو۔ اپنے گھر کو دیکھو، اب باپ کی جگہ تم سردار ہوئے، اپنے کاروبار لین دین سے ہوشیار رہو۔ تسلی دے کر وے رخصت ہوئے۔ گماشتے کاروباری نوکر چاکر جتنے تھے آن کر حاضر ہوئے، نذریں دیں اور بولے کوٹھی نقد و جنس کی اپنی نظرِ مبارک سے دیکھ لیجیئے۔ ایک بارگی جو اس دولتِ بے انتہا پر نگاہ پڑی، آنکھیں کُھل گئیں۔ دیوان خانے کی تیاری کو حکم کیا۔ فراشوں نے فرش فروش بچھا کر چھت پردے چلونیں تکلف کی لگا دیں، اور اچھے اچھے خدمت گار دیدار و نوکر رکھے۔ سرکار سے زرق برق کی پوشاکیں بنوا دیں۔ فقیر مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھا۔ ویسے ہی آدمی غنڈے بھانکڑے مفت پر کھانے پینے والے جھوٹے خوشامدی آ کر آشنا ہوئے اور مصاحب بنے۔ اُن سے آٹھ پہر کی صحبت رہنے لگی۔ ہر کہیں کی باتیں اور زٹلیں واہی تباہی ادھر اُدھر کی کرتے اور کہتے اس جوانی کے عالم میں کیتکی کی شراب یا گلِ گلاب کھنچوائیے، نازنین معشوقوں کو بُلوا کر اُن کے ساتھ پیجیئے اور عیش کیجیئے۔

غرض آدمی کا شیطان آدمی ہے۔ ہر دم کے کہنے سُننے سے اپنا بھی مزاج بہک گیا۔ شراب ناچ اور جوے کا چرچا شروع ہوا۔ پھر تو یہ نوبت پہنچی کہ سوداگری بھول کر تماش بینی کا اور دینے لینے کا سودا ہوا۔ اپنے نوکر اور رفیقوں نے جب یہ غفلت دیکھی جو جس کے ہاتھ پڑا، الگ کیا گویا لوٹ مچا دی۔ کچھ خبر نہ تھی کتنا رپیہ خرچ ہوتا ہے، کہاں سے آتا اور کیدھر جاتا ہے؟ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ اس در خرچی کے آگے اگر گنج قارون کا ہوتا تو بھی وفا نہ کرتا۔ کئی برس کے عرصے میں ایک بارگی یہ حالت ہوئی کہ فقط ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہی۔ دوست آشنا جو دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے اور چمچا بھر خون اپنا ہر بات میں زبان سے نثار کرتے تھے، کافور ہو گئے۔ بلکہ راہ باٹ میں اگر کہیں بھینٹ ملاقات ہو جاتی تو آنکھیں چُرا کر منھ پھیر لیتے، اور نوکر چاکر خدمت گار بہلیے ڈھلیت خاص بردار ثابت خانی سب چھوڑ کر کنارے لگے۔ کوئی بات کا پوچھنے والا نہ رہا جو کہے یہ کیا تمھارا حال ہوا، سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ ٹھہرا۔

اب دمڑی کی ٹھڈیاں میسر نہیں جو چبا کر پانی پیوں۔ دو تین فاقے کڑا کے کھینچے، تاب بھوک کی نہ لا سکا۔ لاچار بے حیائی کا برقعہ منھ پر ڈال کر قصد کیا۔ کہ بہن کے پاس چلیے۔ لیکن یہ شرم دل میں آتی تھی کہ قبلہ گاہ کی وفات کے بعد نہ بہن سے کچھ سلوک کیا، نہ خالی خط لکھا، بلکہ اس نے خط خطوط ماتم پُرسی اور اشتیاق کے جو لکھے، ان کا بھی جواب اِس خوابِ خرگوش میں نہ بھیجا۔ اِس شرمندگی سے جی تو نہ چاہتا تھا، پر سوائے اُس گھر کے اور کوئی ٹھکانا نظر میں نہ ٹھہرا۔ جوں توں پا پیادہ خالی ہاتھ گرتا پڑتا ہزار محنت سے وہ کئی منزلیں کاٹ کر ہمشیر کے شہر میں جا کر اُس کے مکان پر پہنچا۔ وہ ماجائی میرا یہ حال دیکھ کر بلائیں لی اور گلے مِل کر بہت روئی۔ تیل ماش اور کالے ٹکے مجھ پر سے صدقے کیے۔ کہنے لگی "اگرچہ ملاقات سے دل بہت خوش ہوا، لیکن بھیا، تیری یہ کیا صورت بنی؟" اُس کا جواب میں کچھ نہ دے سکا۔ آنکھوں میں آنسو، ڈبڈبا کر چُپکا ہو رہا۔ بہن نے جلدی سے پوشاک سِلوا کر حمام میں بھیجا۔ نہا دھو کر وو کپڑے پہنے۔ ایک مکان اپنے پاس سے بہت اچھا تکلف کا میرے رہنے کو مقرر کیا۔ صبح کو شربت اور لوزیات حلوا سوہن پستہ مغزی ناشتے کو، اور تیسرے پہر میوے خشک و تر پھل پھلاری، اور رات دن دونوں وقت پلاؤ نان قلیے کباب تحفہ تحفہ مزے دار منگوا کر اپنے روبرو کھلا کر جاتی۔ سب طرح خاطرداری کرتی۔ میں نے ویسی تصدیع کے بعد جو یہ آرام پایا۔ خدا کی درگاہ میں ہزار ہزار  شکر بجا لایا۔ کئی مہینے اس فراغت سے گُزرے کہ پانو اس خلوت سے باہر نہ رکھا۔

ایک دن وہ بہن جو بجائے والدہ کے میری خاطر رکھتی تھی، کہنے لگی، اے بیرن! تو میری آنکھوں کی پُتلی اور ماں باپ کی موئی مٹی کی نشانی ہے۔ تیرے آنے سے میرا کلیجا ٹھنڈھا ہوا۔ جب تجھے دیکھتی ہوں، باغ باغ ہوتی ہوں۔ تو نے مجھے نہال کیا، لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لیے بنایا ہے گھر میں بیٹھے رہنا اُن کو لازم نہیں۔ جو مرد نکھٹو ہو کر گھر سیتا ہے، اُس کو دُنیا کے لوگ طھنہ مِہنا دیتے ہیں، خصوصاً اس شہر کے آدمی چھوٹے بڑے بے سبب تمھارے رہنے پر کہیں گے، اپنے باپ کی دولتِ دُنیا کھو کھا کر بہنوئی کے ٹکڑوں پر آ پڑا۔ یہ نہایت بے غیرتی اور میری تمہاری ہنسائی اور ماں باپ کے نام کو سبب لاج لگنے کا ہے۔ نہیں تو میں اپنے چمڑے کی جوتیاں بنا کر تجھے پہناؤں اور کلیجے میں ڈال رکھوں۔ اب یہ صلاح ہے کہ سفر کا قصد کرو۔ خدا چاہے تو دن پھریں اور اس حیرانی و مفلسی کے بدلے خاطر جمعی اور خوشی حاصل ہو۔ یہ بات سُن کر مجھے بھی غیرت آئی، اس کی نصیحت پسند کی۔ جواب دیا ، اچھا اب تم ماں کی جگہ ہو، جو کہو سو کروں۔ یہ میری مرضی پا کر گھر میں جا کے پچاس توڑے اشرفی کے اصیل لونڈیوں کے ہاتھوں میں لِوا کر میرے آگے لا رکھے اور بولی ایک قافلہ سوداگروں کا دمشق کو جاتا ہے، تم ان روپوں سے جنس تجارت کی خرید کرو۔ ایک تاجر ایماندار کے حوالے کر کے، دستاویز پکی لکھوا لو، اور آپ بھی قصد دمشق کا کرو۔ وہاں جب خیریت سے جا پہنچو، اپنا مال مع منافع سمجھ بوجھ لیجیو یا آپ بیچیو۔ میں وہ نقد لے کر بازار میں گیا، اسباب سوداگری کا خرید کر کر ایک بڑے سوداگر کے سپرد کیا۔ نوشت و خواند سے خاطر جمع کر لی۔ وہ تاجر دریا کی راہ سے جہاز پر سوار ہو کر ورانہ ہوا۔ فقیر نے خُشکی کی راہ چلنے کی تیاری کی۔ جب رُخصت ہونے لگا، بہن نے ایک سری پاؤ بھاری اور ایک گھوڑا جڑاؤساز سے تواضع کیا، اور مٹھائی پکوان ایک خاص دان میں بھر کر ہرنے سے لٹکا دیا، اور چھاگل پانی کی شکار بند میں بندھوا دی۔ امام ضامن کا روپیہ میرے بازو پر باندھا، دہی کا ٹیکا ماتھے پر لگا کر آنسو پی کر بولی، سدھارو! تمھیں خدا کو سونپا، پیٹھ دکھائے جاتے ہو، اسی طرح جلد اپنا منہ دکھائیو۔ میں نے فاتحہ خیر کی پڑھ کر کہا، تمھارا بھی اللہ حافظ ہے۔ میں نے قبول کیا۔ وہاں سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوا، اور خدا کے توکل پر بھروسہ کر کےدو منزل کی ایک منزل کرتا ہوا دمشق کے پاس جا پہنچا۔

غرض جب شہر کے دروازے پر گیا، بہت رات جا چکی تھی۔ دربان اور نگاہ بانوں نے دروازہ بند کیا تھا۔ میں نے بہت منت کی کہ مسافر ہوں، دور سے دھاوا مارے آتا ہوں، اگر کواڑ کھول دو شہر میں جا کر دانے گھاس کا آرام پاؤں۔ اندر سے گھڑک کر بولے، اس وقت دروازہ کھولنے کا حکم نہیں، کیوں اتنی رات گئے تم آئے؟ جب میں نے جواب صاف اُن سے سنا، شہر پناہ کی دیوار کے تلے گھوڑے پر سے اُتر زین پوش بچھا کر بیٹھا۔ جاگنے کی خاطر ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ جس وقت آدھی رات اِدھر اور آدھی رات اُدھر ہوئی، سنسان ہو گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک صندوق قلعے کی دیوار پر سے نیچے چلا آتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں اچنبھے میں ہوا کہ یہ کیا طلسم ہے؟ شاید خدا نے میری حیرانی و پریشانی پر رحم کھا کر خزانہ غیب سے عنایت کیا۔ جب وہ صندوق زمین پر ٹھہرا، ڈرتے ڈرتے میں پاس گیا، دیکھا تو کاٹھ کا صندوق ہے۔ لالچ سے اُسے کھولا۔ ایک معشوق، خوب صورت، کامنی سی عورت (جس کے دیکھنے سے ہوش جاتا رہے) گھایل، لہو میں تربتر، آنکھیں بند کئے پڑی کُلبلاتی ہے، آہستہ آہستہ ہونٹھ ہلتے ہیں، اور یہ آواز منہ سے نکلتی ہے۔ ای کم بخت بے وفا! اے ظالمِ پُرجفا! بدلا اس بھلائی اور محبت کا یہی تھا جو تُو نے کیا؟ بھلا ایک زخم اور بھی لگا، میں نے اپنا تیرا انصاف خدا کو سونپا۔ یہ کہہ کر اُسی بے ہوشی کے عالم میں دوپٹے کا آنچل منہ پر لے لیا۔ میری طرف دھیان نہ کیا۔

فقیر اُس کو دیکھ کر اور یہ بات سُن کر سُن ہوا، جی میں آیا، کسی بے حیا ظالم نے کیوں ایسے نازنین صنم کو زخمی کیا، کیا اُس کے دل میں آیا؟ اور ہاتھ اُس پر کیوں کر چلایا؟ اُس کے دل میں تو محبت اب تلک باقی ہے جو اس جان کنی کی حالت میں اُس کو یاد کرتی ہے، میں آپ ہی آپ یہ کہہ رہا تھا، آواز اس کے کان میں گئی، ایک مرتبہ منہ سرکا کر مجھ کو دیکھا۔ جس وقت اس کی نگاہیں میری نظروں سے لڑیں، مجھے غش آنے اور جی سنسنانے لگا۔ بہ زور اپنے تئیں تھانبا۔ جُرات کر کے پُوچھا، سچ کہو تم کون ہو اور یہ کیا ماجرا ہےِ اگر بیان کرو تو میرے دل کو تسلی ہو۔ یہ سُن کر اگرچہ طاقت بولنے کی نہ تھی آہستے سے کہا، شکر ہے۔ میری حالت زخموں کے مارے یہ کچھ ہو رہی ہے۔ کیا خاک بولوں؟ کوئی دم کی مہمان ہوں، جب میری جان نکل جاوے تو خدا کے واسطے جواں مردی کر کے مجھ بدبخت کو اسی صندوق میں کسی جگہ گاڑ دیجو۔ تو میں بھلے بُرے کی زبان سے نجات پاؤں، اور تُو داخل ثواب کے ہو۔ اتنا بول کر چُپ ہوئی۔

رات کو مجھ سے کچھ تدبیر نہ ہوسکی، وہ صندوق اپنے پاس اُٹھا لایا اور گھڑیاں گننے لگا کہ کب اتنی رات تمام ہو تو فجر کو شہر میں جا کر جو کچھ علاج اس کا ہو سکے بہ مقدور اپنی کروں۔ وہ تھوڑی سی رات ایسی پہاڑ ہو گئی کہ دل گھبرا گیا۔ بارے خُدا خُدا کر کے صبح جب نزدیک ہوئی، مُرغ بولا، آدمیوں کی آواز آنے لگی۔ میں نے فجر کی نماز پڑھ کر صندوق کو خورجی میں کسا۔ جونہیں دروازہ شہر کا کُھلا، میں شہر میں داخل ہوا ہر ایک آدمی اور دکان دار سے حویلی کرائے کی تلاش کرنے لگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک مکانِ خوش قطع نیا فراغت کا بھاڑے لے کر جا اُترا۔ پہلے اس معشوق کو صندوق سے نکال کر روئی کے پہلوں پر ملائم بچھونا کر کے ایک گوشے میں لٹایا، اور آدمی اعتباری وہاں چھوڑ کر فقیرِ جراح کی تلاش میں نکلا۔ ہر ایک سے پوچھتا پھرتا تھا کہ اس شہر میں جراح کاری گر کون ہے اور کہاں رہتا ہے؟ ایک شخص نے کہا، ایک حجام جراحی کے کسب اور حکیمی کے فن میں پکا ہے، اور اس کام میں نپٹ پکا ہے، اگر مُردے کو اُس پاس لے جاؤ، خُدا کے حُکم سے ایسی تدبیر کرے کہ ایک بار وہ بھی جی اُٹھے ۔ وہ اس محلے میں رہتا ہے اور عیسیٰ نام ہے۔

میں یہ مُژدہ سُن کر بے اختیار چلا۔ تلاش کرتے کرتے پتے سے اُس کے دروازے پر پہنچا۔ ایک مردِ سفید ریش کو دہلیز پر بیٹھا دیکھا اور کئی آدمی مرہم کی تیاری کے لئے کچھ پیس پاس رہے تھے۔ فقیر نے مارے خوشامد کے ادب سے سلام کیا اور کہا، میں تُمھارا نام اور خُوبیاں سُن کر آیا ہوں۔ ماجرا یہ ہے کہ میں اپنے مُلک سے تجارت کے لئے چلا، قبیلے کو بہ سبب محبت ساتھ لیا۔ جب نزدیک اس شہر کے آیا، تھوڑی سی دُور رہا تھا کہ شام پڑ گئی۔ اَن دیکھے مُلک میں رات کو چلنا مناسب نہ جانا۔ میدان میں ایک درخت کے تلے اُتر پڑا۔ پچھلے پہر ڈاکا آیا، جو کچھ مال و اسباب پایا لُوٹ لیا، گہنے کے لالچ سے اس بی بی کو بھی گھایل کیا۔ مجھ سے کچھ نہ ہوسکا، رات جو باقی تھی جُوں تُوں کر کے کاٹی، فجر ہی شہر میں آن کر ایک مکان کرائے لیا، اُن کو وہاں رکھ کر میں تمھارے پاس دوڑا آیا ہوں۔ خُدا نے تمھیں یہ کمال دیا ہے، اس مسافر پر مہربانی کرو، غریب خانے تشریف لے چلو، اُس کو دیکھو اگر اس کی زندگی ہوئی تو تمھیں بڑا جس ہو گا اور میں ساری عمر غلامی کروں گا۔ عیسیٰ جراح بہت رحم دل اور خُدا پرست تھا۔ میری غریبی کی باتوں پر ترس کھا کر میرے ساتھ اُس حویلی تک آیا۔ زخموں کو دیکھتے ہی میری تسلی کی، بولا کہ خُدا کے کرم سے اِس بی بی کے زخم چالیس دن بھر آویں گے، غسل شفا کا کروا دوں گا۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول