صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


بغداد آشوب

خالد علیم


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                        ٹیکسٹ فائل

امن اور جنگ

امن عالم کے خداوند یہ سب جانتے ہیں

کس کا بہتا ہے لہو، کون بہاتا ہے لہو

کس کی گردن پہ ہے شمشیر کی نوک اور یہ شمشیر کہاں سے آئی

پاؤں کس کا ہے تو زنجیر کہاں سے آئی

کس کو دکھلایا گیا امن کا خواب

اور پھر اس خواب کی تعبیر کہاں سے آئی

بے گناہوں کے لیے جبر کی تعزیر کہاں سے آئی

کس کے ہاتھوں سے ہوئی قتل گہوں کی تعمیر

اور درپردہ تعمیر یہ تخریب کی تدبیر کہاں سے آئی

امن عالم کے خداوند یہ سب جانتے ہیں

کس نے انسان کو پابند سلاسل رکھا

کس نے منزل کا دیا کس کو فریب اور کسے آوارہ منزل رکھا

کس نے زرخیز زمینوں کو بنایا بنجر

کس نے شاداب، مہکتے ہوئے قریوں کے مکینوں کو کفن پہنائے

کس نے محکوم کی رگ رگ میں اتارے خنجر

اور تہمت ہے لہو کی کس پر

کس کی دہشت نے کسے لرزہ بر اندام کیا

اور پھر الزام بھی کس پر آیا

امن کے نام پہ جنگوں کا یہ دستور نکالا کس نے

ہاتھ کس کا ہے، گریباں کس کا

دھجیاں کس کی اڑیں کس کا بدن چاک ہوا

اور لہو کس کا، اچھالا کس نے

کس کے سرسبز دیاروں کو لہو رولتے آفاق میں ڈھالا کس نے

امن عالم کے خداوند یہ سب جانتے ہیں

امن عالم کے خداوندوں کا یہ فلسفہ ہے

کہ جو باشندہ مغرب ہے وہ باشندہ آفاق بھی ہے

اس کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، وہی زندگیوں کا ہے خداوند

کہ سورج جو یہ مشرق سے نکلتا ہے

تو اس پر بھی اسی کا حق ہے

روشنی ساری زمیں پر جو بکھرتی ہے تو کیا

صبح مشرق سے اترتی ہے تو کیا

کرہ خاک کے ہر قریے میں

ایک ایک کرن لے کے ابھرتی ہے تو کیا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا ہے،

وہی سورج کا خداوند بھی ہے

امن عالم کے خداوندوں کا یہ فلسفہ درپردہ امن

خطہ شرق کے دم توڑتے انسانوں سے اک جنگ کا اعلان بھی ہے

امن کے نام پہ اس جنگ کا اعلان مگر

برتر اقوام کے مغرور خداؤں کی عنایات کا تاوان بھی ہے

اور منطق ہے یہ کچھ مصلحت اندیشوں کی

امن غیرت کے بدل میں بھی جو مل جائے تو یہ جنگ سے بہتر ہوگا

لیکن ان حیلہ گروں سے کوئی یہ تو پوچھے

امن کے نام پہ ہر معرکہ جنگ و جدال

کس نے برپا کیا اور کس کا لہو کس کی زمیں پر ٹپکا؟

کون اس معرکہ جبر میں آخر تہ شمشیر ہوا اور یہ شمشیر کہاں سے آئی؟

پاؤں کس کا ہے تو زنجیر کہاں سے آئی؟


***


یہ خاک زادوں نے کیسا ستم اٹھایا ہوا ہے

مری زمین کو بھی آسماں بنایا ہوا ہے


جہاں کبھی وہ بہتر سروں کی فصل کٹی تھی

سر فرات وہ مقتل تو پھر سجایا ہوا ہے


نہیں کچھ اور تو ایماں کی خیر ہو مرے مولا!

کہ رزمگاہ میں ابلیس ساتھ آیا ہوا ہے


بس ایک میری صدا جبر کے خلاف اُٹھی تھی

بس ایک مجھ پہ ہی اس نے ستم اٹھایا ہوا ہے


ابھی رُکی نہ تھی میرے لہو کی دھار کہ اس نے

اک اور دجلہ خوں شہر میں بہایا ہوا ہے


میں اس زمین پہ کس طرح سر اٹھا کے چلوں گا

ہر ایک شخص جہاں خون میں نہایا ہوا ہے


ہر ایک غنچہ و گل جل کے راکھ ہونے لگا ہے

مری زمین پہ کیسا عذاب آیا ہوا ہے


جو دل پہ وار پڑے، ان کی ٹیس کم نہیں ہوگی

جو زخم تن پہ لگے ہیں، انہیں بھلایا ہوا ہے


اسی امید پہ میری طرف وہ آیا ہوا ہے

کہ اس نے کچھ مجھے پہلے بھی آزمایا ہوا ہے


اُسی فریب سے میدان ہار دوں گا میں آخر

وہی فریب، جو پہلے بھی میں نے کھایا ہوا ہے


مجھے خبر ہے وہ اب بھی پرانی چال چلے گا

نئی بساط پہ مہرے تو اور لایا ہوا ہے


میں جانتا ہوں کہ بے دست و پا اسی میں گروں گا

وہ ایک جال جو چاروں طرف بچھایا ہوا ہے


نہ جل اٹھیں کہیں کچھ اور بھی چراغ کہ اس نے

اِس احتمال پہ میرا دیا بجھایا ہوا ہے


دکھا رہا ہے مجھے اس کی تیز دھار ابھی وہ

جو خنجر اس نے مرے واسطے بنایا ہوا ہے


ابھی رکھا نہیں میری رگ گلو پہ وہ خنجر

ابھی تو اس نے زمیں پر مجھے گرایا ہوا ہے

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                        ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول