صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


بغیر عنوان کے

سعادت حسن منٹو

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

(۱)

آئے دن سعید کو زکام ہوتا تھا۔ ایک روز جب اس زکام نے تازہ حملہ کیا تو اس نے سوچا.... مجھے عشق کیوں نہیں ہوتا؟ سعید کے جتنے دوست تھے سب کے سب عشق کر چکے تھے۔  ان میں سے کچھ ابھی تک اس میں گرفتار تھے۔ لیکن جس قدر وہ محبت کو اپنے پاس دیکھنا چاہتا۔ اسی قدر اس کو اپنے سے دور پاتا۔ عجیب بات ہے مگر اس کو ابھی تک کسی سے عشق نہیں ہوا تھا۔ جب کبھی وہ سوچتا کہ واقعی اس کا دل عشق و محبت سے خالی ہے تو اسے شرمندگی سی محسوس ہوتی اور وقار کو ٹھیس سی پہنچتی۔

بیس سال کا  عرصہ جس میں کئی برس اس کے بچپن کی بے شعوری کی دھند میں لپٹے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی اس کے سامنے لاش کی مانند اکڑ جاتا تھا۔  اور سوچتا کہ اس کا وجود اب تک بالکل بیکار رہا ہے۔ محبت کے بغیر آدمی کیونکر مکمل ہو سکتا ہے؟

سعید کو اس بات کا احساس تھا کہ اس کا دل خوبصورت ہے اور اس قابل ہے کہ محبت اس میں رہے، لیکن وہ مرمریں محل کس کام کا جس میں رہنے والا کوئی بھی نہ ہو، چونکہ اس کا دل محبت کرنے کا اہل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اس خیال سے بہت دکھ ہوتا کہ اس کی دھڑکنیں بالکل فضول ضائع ہو رہی ہیں۔

اس نے لوگوں سے سنا تھا زندگی میں ایک بار محبت ضرور آتی ہے۔ خود اسے بھی اس بات کا ہلکا سا یقین تھا کہ موت کی طرح محبت ایک بار ضرور آئے گی۔ مگر کب؟ کب؟ کاش اس کی کتاب حیات اس کی اپنی جیب میں ہوتی۔ جسے کھول کر وہ اس کا جواب فوراً پا لیتا۔ مگر یہ کتاب تو واقعات خود لکھتے ہیں۔  جب محبت آئے گی تو خود بخود اس کتاب حیات میں نئے ورقوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ وہ ان نئے ورقوں کے اضافے کے لئے کتنا بے تاب تھا۔

وہ جب چاہے اٹھ کر ریڈیو پر گیت سن سکتا تھا۔ جب چاہے کھانا کھا سکتا تھا۔ اپنی مرضی کے مطابق ہر وقت وسکی بھی پی سکتا تھا۔ جس کی اس کے مذہب میں ممانعت تھی۔ وہ اگر چاہتا تو استرے سے اپنے گال بھی زخمی کر لیتا۔ مگر حسب منشا کسی سے محبت نہیں کر سکتا تھا۔

ایک بار اس نے بازار میں ایک نوجوان لڑکی دیکھی، اس کی چھاتیاں دیکھ کر اسے ایسا معلوم ہوا کہ دو بڑے بڑے شلجم ڈھیلے کرتے میں چھپے ہوئے ہیں۔ شلجم اسے بہت پسند تھے۔ سردیوں کے موسم میں کوٹھے پر جب اس کی ماں لال لال شلجم کاٹ کر سکھانے کے لئے ہار پرویا کرتی تھی۔ تو وہ کئی کچے شلجم کھا جایا کرتا تھا۔ اس لڑکی کو دیکھ کر اس کی زبان پر وہی ذائقہ پیدا ہوا جو شلجم کا گودا چباتے وقت پیدا ہوتا ہے، مگر اس کے دل میں اس سے عشق کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا۔ وہ اس کی چال کو غور سے دیکھتا رہا جس میں ٹیڑھا پن تھا۔ ویسا ہی ٹیڑھا پن، جیسا کہ برسات کے موسم میں چارپائی کے پاپوں میں کان کے باعث پیدا ہو جایا کرتا ہے۔وہ اس کے عشق میں خود کو گرفتار نہ کر سکا۔

عشق کرنے کے ارادے سے وہ اکثر اوقات اپنی گلی کے نکڑ پر دریوں کی دکان پر جا بیٹھا تھا۔ یہ دوکان سعید کے ایک دوست کی تھی جو ہائی سکول کی ایک لڑکی سے محبت کر رہا تھا۔ اس لڑکی کی محبت لدھیانے کی ایک دری کے ذریعے سے پیدا ہوئی تھی۔ دری کے دام اس لڑکی کے بیان کی بموجب اس کے دو پٹے کے پلو سے کھل کر کہیں گر پڑے تھے۔ لطیف چونکہ اس کے گھر کے پاس رہتا تھا اس لئے اس نے اپنے چچا کی جھڑکیوں اور گالیوں سے بچنے کے لئے اس سے دری ادھار مانگی اور.... دونوں میں محبت ہو گئی۔شام کو بازار میں آمدورفت زیادہ ہو جاتی۔ اور دربار صاحب جانے کے لئے چونکہ راستہ وہی تھا۔ اس لئے عورتیں بھی کافی تعداد میں اس کی نظروں کے سامنے سے گذرتی تھیں۔ مگر جانے کیوں اسے ایسا محسوس ہوتا کہ جتنے لوگ بازار میں چلتے پھرتے ہیں۔ سب کے سب شفاف ہیں۔ اس کی نگاہیں کسی عورت، کسی مرد پر نہیں رکتی تھیں۔ لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کو اس کی آنکھیں ایک ایسی متحرک جھلی سمجھتی تھی جس میں سے وہ آسانی کے ساتھ جدھر چاہیں دیکھ سکتی ہیں ....

اس کی آنکھیں کدھر دیکھتی تھیں۔ یہ نہ آنکھوں کو معلوم تھا، اور نہ سعید کو، اس کی نگاہیں دور بہت دور سامنے چونے اور گارے کے بنے ہوئے پختہ مکانوں کو چھیدتی ہوئی نکل جاتیں۔ نہ جانے کہاں اور خود ہی کہیں گھوم گھام کر اس کے دل کے اندر آ جاتیں۔بالکل ان بچوں کی مانند جو اپنی ماں کی چھاتی پر اوندھے منہ لیٹے ناک، کان اور بالوں سے کھیل کھال کر اپنے ہاتھوں کو تعجب آمیز دلچسپی سے دیکھتے دیکھتے نیند کے نرم نرم گالوں میں دھنس جاتے ہیں۔

لطیف کی دکان پر گاہک بہت کم آتے تھے۔  اس لئے وہ اس کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے مختلف قسم کی باتیں کیا کرتا تھا۔ لیکن وہ سامنے لٹکی ہوئی دری کی طرف دیکھتا رہتا، جس میں رنگ برنگ کے بے شمار دھاگوں کے الجھاؤ نے ایک ڈیزائن پیدا کر دیا تھا۔ لطیف کے ہونٹ ہلتے رہتے ، اور وہ یہ سوچتا رہتا کہ اس کے دماغ کا نقشہ دری کے ڈیزائن سے کس قدر ملتا جلتا ہے۔ بعض اوقات تو وہ یہ خیال کرتا کہ اس کے اپنے خیالات ہی باہر نکل کر اس دری پر رینگ رہے ہیں۔

اس دری میں اور سعید کی دماغی حالت میں بلا کی مشابہت تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ رنگ برنگ کے دھاگوں کے الجھاؤ نے اس کے سامنے دری کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے رنگ برنگی خیالات و محسوسات کا الجھاؤ ایسی صورت اختیار نہیں کر تا تھا، جس کو وہ دری کی مانند اپنے سامنے بچھا کریا لٹکا کر دیکھ سکتا!

لطیف بے حد خام تھا۔ گفتگو کرنے کا سلیقہ تک اسے نہیں آتا تھا، کسی شے میں خوبصورتی تلاش کرنے کے لئے اس سے کہا جاتا تو فرط حیرت سے بالکل بے وقوف دکھائی دیتا، اس کے اندر وہ بات ہی پیدا نہیں ہوئی تھی، جو ایک آرٹسٹ میں پیدا ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود ایک لڑکی اس سے محبت کرتی تھی۔ اس کو خط لکھتی تھی، جس کو لطیف البتہ یوں پڑھتا تھا جیسے کسی تیسرے درجے کے اخبار میں جنگ کی خبریں پڑھ رہا ہے، ان خطوط میں وہ کپکپاہٹ اسے نظر نہیں آتی تھی جو ہر لفظ میں گندھی ہوئی ہے۔ وہ لفظوں کی نفسیاتی اہمیت سے بالکل بے خبر تھا۔ اس سے اگر یہ کہا جاتا، دیکھو لطیف یہ پڑھو.... لکھتی ہے۔‘‘ میری پھوپھی نے کل مجھ سے کہا، کیا ہوا ہے تیری بھوک کو؟ تو نے کھانا پینا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ جب میں نے سنا تو معلوم ہوا کہ سچ مچ میں آج کل بہت کم کھاتی ہوں۔ دیکھو میرے لئے کل شہاب الدین کی دو کان سے کھیر لیتے آنا.... جتنی لاؤ گے سب چٹ کر جاؤں گی۔ اگلی پچھلی کسر نکال دوں گی.... کچھ معلوم ہوا تمہیں اس سطر میں کیا ہے.... تم شہاب الدین کی دوکان سے کھیر کا ایک بہت بڑا ڈونا لے کر جاؤ گے۔ لیکن لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر ڈیوڑھی میں جب تم اسے یہ تحفہ دو گے تو اس خیال سے خوش نہ ہونا کہ وہ ساری کھیر کھا جائے گی، وہ کبھی نہیں کھا سکے گی .... پیٹ بھر کر وہ کچھ کھا ہی نہیں سکتی، جب دماغ میں خیالات کا ہجوم جمع ہو جائے تو پیٹ خود بخود بھر جایا کرتا ہے، لیکن یہ فلسفہ اس کی سمجھ میں کیسے آتا۔ وہ تو سمجھنے سمجھانے سے بالکل کورا تھا۔ جہاں تک شہاب الدین کی دکان سے چار آنے کی کھیر اور ایک آنے کی خوشبو دار ربڑی خریدنے کا تعلق تھا، لطیف بالکل ٹھیک تھا، لیکن کھیر کی فرمائش کیوں کی گئی اور اس کے ذریعہ سے اشتہا پیدا کرنے کا خیال کن حالات کے تحت اس کی محبوبہ کے دماغ میں پیدا ہوا۔ اس سے لطیف کو کو ئی سرور کار نہیں تھا۔ وہ اس قابل ہی نہیں تھا کہ ان باریکیوں کو سمجھ سکے۔ وہ موٹی عقل کا آدمی تھا، جو لوہے کی زنگ آلود گز سے نہایت بھونڈے طریقے سے دریاں ماپتا تھا۔ اور شاید اسی طرح کے گز سے اپنے احساسات کی پیمائش بھی کرتا تھا۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک لڑکی اس کی محبت میں گرفتار تھی، جو ہر جہت سے اس کے مقابلہ میں ارفع و اعلیٰ تھی۔ لطیف اور اس میں اتنا ہی فرق تھا، جتنا لدھیانے کی دری اور کشمیر کے گدگدے قالین میں۔

سعید کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ محبت پیدا کیسے ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ خود جس وقت چاہے رنج و الم طاری کر سکتا تھا۔ محبت جس کے لئے وہ اس قدر بے تاب تھا۔

اس کا ایک اور دوست جواس قدر کاہل تھا کہ مونگ پھلی اور چنے، صرف اس صورت میں کھا سکتا تھا اگر ان کے چھلکے اترے ہوئے ہوں اپنی گلی کی ایک حسین لڑکی سے محبت کر رہا تھا، ہر وقت اس کے حُسن کی تعریف میں رطب اللسان رہتا تھا۔ لیکن اگر اس سے پوچھا جاتا.... یہ حسن تمہاری محبوبہ میں کہاں سے شروع ہوتا تو یقیناً وہ خالی الذہن ہو جاتا۔ جس کا مطلب وہ بالکل نہیں سمجھتا تھا۔ کالج میں تعلیم پانے کے باوجود اس کے ذہن کی نشوونما بڑے ادنیٰ طریقے پر ہوئی تھی، لیکن اس کی محبت کی داستان اتنی لمبی تھی کہ اقلیدس سے بڑی کتاب تیار ہو جاتی۔ آخر ان لوگوں کو.... ان جاہلوں کو عشق و محبت کرنے کا کیا حق حاصل ہے؟.... کئی بار یہ سوال سعید کے دماغ میں پیدا ہوا اور اس کی پریشانی بڑھ گئی لیکن دیر تک سوچ بچار کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ محبت کرنے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے،خواہ وہ بے شعور ہو یا با شعور....

دوسروں کو محبت کرتے دیکھ کر دراصل اس کے دل میں حسد کی چنگاری بھڑک اٹھتی تھی، وہ جانتا تھا کہ وہ بہت بڑا کمینہ پن ہے مگر وہ مجبور تھا، محبت کرنے کی خواہش اس پر اس قدر غالب رہتی کہ بعض اوقات دل ہی دل میں محبت کرنے والوں کو گالیاں بھی دیا کرتا۔ لیکن گالیاں دینے کے بعد اپنے آپ کو بھی کوستا۔ کہ ناحق اس نے دوسروں کو برا بھلا کہا۔ اگر دنیا کے سارے آدمی ایک دم محبت کرنے لگیں تو اس میں میرے باوا کا کیا جاتا ہے مجھے صرف اپنی ذات سے تعلق رکھنا چاہئے اگر میں کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتا تو ا س میں دوسروں کا کیا قصور ہے، بہت ممکن ہے کہ میں کسی لحاظ سے اس قابل ہی نہیں ہوں ، کیا پتہ ہے کہ بیوقوف اور بے عقل ہونا ہی محبت کرنے کے لئے ضروری ہو....‘‘

سوچتے سوچتے ایک دن وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ محبت ایک دم پیدا نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ محبت ایک دم پیدا ہو تی ہے۔  اگر ایسا ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس کے دل میں اب سے بہت عرصہ پہلے محبت پیدا ہو گئی ہوتی، کئی لڑکیاں اس کی نگاہوں سے اب تک گذر چکی تھیں ، اگر محبت ایک دم پیدا ہو سکتی تو وہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ خود کو بڑی آسانی کے ساتھ وابستہ کر سکتا تھا۔ کسی لڑکی کو صرف ایک دو بار دیکھ لینے سے محبت کیسے پیدا ہو جاتی ہے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

تھوڑے روز ہوئے ایک دوست نے جب اس سے کہا، کمپنی باغ میں آج میں نے ایک لڑکی دیکھی ایک ہی نظر میں اس نے مجھے گھائل کر دیا تو اس کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ ایسے فقرے اس کو بہت پست معلوم ہوتے تھے۔ایک ہی نظر میں اس نے مجھے گھائل کر دیا۔ لاحول ولا.... جذبات کا کس قدر عامیانہ اظہار ہے۔‘‘

جب وہ اس قسم کی پست اور تیسرے درجے کے فقرے کسی کی زبان سے سنتا تو اسے ایسا معلوم ہوتا کہ اس کے کانوں میں پگھلتا ہوا سیسہ ڈال دیا گیا ہے۔

مگر پست ذہنیت اور لنگڑے مذاق کے لوگ اس سے زیادہ خوش تھے یہ لوگ جو عشق و محبت کی لطافتوں سے بالکل کورے تھے.... اس کے مقابل میں بہت زیادہ سکون اور آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔۔۔۔ اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول