صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


بادبان باقی ہے

امجد جاوید
جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

غزلیں

زندگی تو نے اگر برف بنا رکھی ہے

میں نے بھی جسم میں اک آگ لگا رکھی ہے


اے خدا تو بھی کسی روز میرے دل میں اتر

میں نے مسجد میں تیری اس دل میں بنا رکھی ہے


دل یہ چاہتا ہے تیرے نام سے منسوب کروں

میں نے کاغذ پہ جو تصویر بنا رکھی ہے


اب تو اک بوجھ سا لگتا ہے مرے سر پہ مجھے

تو نے جو دھوپ میں یہ چھاؤں بنا رکھی ہے


یہ جو بدنام ہوئے جاتے ہیں ہم تم امجد

یہ خبر شہر میں کس کس نے اڑا رکھی ہے

٭٭٭




کشتیاں نہیں باقی بادبان باقی ہے

آنکھ کے سمندر میں اک چٹان باقی ہے


مرحلے محبت کے مجھ سے طے نہیں ہوئے

بعد امتحان کے بھی امتحان باقی ہے


یہ زمین مجھ کو تو راس ہی نہیں آئی

اب خلا نوردی کو آسمان باقی ہے


سوچنے پہ پابندی کس طرح لگاؤ گے

بول تو نہیں سکتے پر زبان باقی ہے


میرے دل کا دروازہ کوئی کھٹکھٹائے گا

جانے کیوں میرے دل میں یہ گمان باقی ہے


جو سفر مقدر تھا، اس سفر پہ نکلا ہوں

کس طرح کہوں امجد اب مکان باقی ہے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فال

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول