صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بدلتی رتوں کی حیرت
طارق بٹ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نظم، غزلیں
﴿اب ملاقات ہو تو ایسے ہو﴾
اب ملاقات ہو تو ایسے ہو
درمیاں کو ئی بھی حجاب نہ ہو
کہیں دیوار ہو نہ در کوئی
کنجِ ویراں کہیں نہ گھر کوئی
جزہمارے کہیں نہ ہو کوئی
سب زمیں زاد سب فلک والے
کھوئے ہوں اپنی الجھنوں میں کہیں
یہ زمیں اپنے آپ میں گم ہو
آسماں اپنے دھیان میں ہو کہیں
ہر طرف خامشی اندھیرے سی
جس میں روشن ہوں دو دیے
میں !
تم !
اورہو ا روٹھ کر چلی جائے
سانس لیں ایک دوسرے میں ہم
***
مجھے تو درد کا چہرا دکھائی دیتا ہے
بتا، تجھے بھی کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے؟
یہ کیا کہ سر کو جُھکا کر ہم اپنی عمر جئیں
وہ آسماں ہے، تو اُونچا دکھائی دیتا ہے
میں کیوں کہوں کہ اندھیرا ہے سب مرے اندر
ذرا سا دل میں اُجالا دکھائی دیتا ہے
تماشا گر ہے عجب، رُوپ ہیں ہزار اُس کے
وہ ۱یسا ہے نہیں ، جیسا دکھائی دیتا ہے
سمندروں سے بھی گہرے دلوں میں اُترا ہوں
وہاں بھی پیاس کا صحرا دکھائی دیتا ہے
***
عجب آدمی تھا یہ قیس بھی بڑا کام کر کے چلا گیا
تھا کمال اُس کو جُنون میں ، سو تمام کر کے چلا گیا
رہیں دشت میں بھی رمیدہ خو، پھریں آ کے شہر میں کو بکو
کوئی بے سکوں یہاں بے سکونی کوعام کر کے چلا گیا
کوئی بات ایسی ہوئی تو ہے، کہ وہ موج موج سا آدمی
جو یوں تِیغِ تیز سی زندگی کو نیام کر کے چلا گیا
نہیں اس سے کچھ بھی غرض ہمیں ، یہاں کون کس کا مقام ہے
کوئی نام کر کے چلا گیا، کوئی کام کر کے چلا گیا
بڑا مطمئن تھا یہ دل مرا، بڑے چین سے تھی بسر یہاں
مگر ایک فتنۂ آرزو، جو خرام کر کے چلا گیا
نہ تھا میرؔ سا کوئی معتبر، مگر ایک طارقِؔ بے ہنر
جو کلام کر کے چلا گیا۔، تو تمام کر کے چلا گیا
٭٭٭٭٭٭٭٭