صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
افروز سیدہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
گمشدہ منزل
تیری یادوں کے چراغوں کا اجالا ہے یہاں
ورنہ دنیا میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ
ضروری تو نہیں کہ انسان کسی چیز کی خواہش کرے اور وہ چیز اسے حاصل
ہو جائے زندگی میں آرزوؤں اور تمناؤں کا خون ہوتا رہا ہے ! لوگ پھر
بھی زندہ رہتے ہیں ایسی خواہش کے دکھ کو دل میں کیوں بسائیں جس کا
پورا ہونا ممکن نہ ہو؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس
کا دل شام ہی سے جانے کیوں بیٹھا جا رہا تھا دھڑکنیں کبھی تیز ہو جاتیں
کبھی مدھم پڑ جاتیں اختلاج کی سی کیفیت تھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا
کہ یہ کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے اب تو اسے کوئی فکر پریشانی بھی نہیں
تھی وہ دن کب کے گزر گئے تھے جب وہ حیران پریشان رہا کرتی تھی دو بیٹوں
اور ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد اس کا شوہر فالج کا شکار ہو کر اپاہج
ہو گیا تھا ملازمت جاتی رہی۔ بچے چھوٹے تھے اور کوئی ذریعہ
آمدنی نہیں تھا چند دن تک رشتے داروں نے مدد کی لیکن کسی کی وقتی مدد
زندگی بھر کا سہارا تو نہیں بن سکتی۔ ۔ ۔ رفیعہ کے لئے زندگی ایک
چیلنج ایک امتحان بن گئی تقدیر کی ستم ظریفی سے کوئی گلہ نہیں تھا وہ ایک
با ہمت دل اور پر اعتماد دماغ کی حامل عورت تھی۔ گرائجویشن کے
بعد ٹائپ اور شارٹ ہینڈکا اعلی امتحان پاس کیا تھا اسے ایک بسکٹ
فیکڑی میں معقول تنخواہ پر اکاؤنٹنٹ کم سوپروائزر کی نوکری مل گئی جلد ہی
اس نے ایک جنرل اسٹورکھول کرشوہر کوبیٹھادیا۔
ہمہ اقسام کے بسکٹ اپنی فیکٹری سے خرید کر اس نے دوکان پر رکھے ایک لڑکے کو بھی ملازم رکھ لیا۔ فیکٹری سے نکل کروہ کمپیوٹر سیکھنے جانے لگی۔ اسکول سے آنے کے بعد بچے گھر اور دوکان سنبھالنے لگے زندگی سکون سے گزرتی رہی۔ چند سال کی محنت کے بعد رفیعہ نے ایک کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کھول لیا جہاں لڑکیوں اور خواتین کو کمپیوٹر کے علاوہ مختلف ٹکنیکل کو رسس کرانے کا انتظام تھا۔ مہینے میں ایک دن گھر پر دینی اجتماع ہوتا تھا جہاں امیر غریب سبھی خواتین جمع ہوتی تھیں اور چندہ کے طورپر بساط بھر رقم جمع کرتی تھیں جمع شدہ رقم سے سال میں ایکبار کسی مستحق ضرورت مندکی مددبھی کی جاتی تھی۔ محلے میں رفیعہ کا ایک مقام بن گیا تھا وہ وقت بھی آ گیا کہ بچوں کی تعلیم مکمل ہو گئی بڑے لڑکے کی شادی کر دی وہ بیرون ملک اپنی بیوی کے ساتھ چلا گیا چھوٹے لڑکے کو اچھی کمپنی میں ملازمت مل گئی پھر رفیعہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ بیٹی کے ہاتھ پیلے کئے اور سسرال روانہ کیا جسکے چنددن بعد ہی رفیعہ کے شوہر نے رخت سفر باندھا اور اسے اکیلا چھوڑ سوئے عدم روانہ ہو گیا زندگی کے ان تمام تیزرفتارسالوں میں رفیعہ اسقدرمصروف رہی کہ کبھی اپنے آپ پرتو جہ نہیں دی اسے تو بچوں کی تعلیم ، بیمارشوہر کی خدمت اور غریبوں کی مدد کے سواکچھ یادنہیں تھا اس نے اپنے لطیف احساسات اور جذبات کو تھپک تھپک کرسلادیا اور حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا وہ کبھی بیمار ہوئی نہ کسی نے اس کی طرف توجہ کی تھی آج جیسے اعصابی تھکن نے اسے نڈھال کر دیا تھا تنہابسترپر لیٹی ہوئی گزرے دنوں کا محاسبہ کر رہی تھی کہ دل کی دھڑ کنیں بے ترتیب ہونے لگیں ہاتھ پاؤں میں لرزہ سامحسوس کر رہی تھی اس کا لڑکا رات دیر گئے گھر آتا اور اپنے کمرے میں چلا جاتا تنہارہنے والی ماں سے بات کرنا گھر جلدی آنا وہ ضروری نہیں سمجھتا تھا جیسے وہ ماں نہیں کونے میں پڑی ہوئی کوئی مشین تھی۔ بڑ الڑکا کبھی عیدبقرعیدپربات کر لیا کرتا تھا اور بیٹی تو سسرال کی ہوبیٹھی تھی۔
آج اس کا دل چاہ رہا تھا کوئی اس کے قریب بیٹھے اس کا حال پوچھے تسلی اور محبت کے دوبول سننے کی خواہش نے اسے بے چین کر دیا جن بچوں کے لئے وہ اپنی تمام خوشیوں اور خواہشات کو تیاگ کر زندگی بھر شیشے کی کرچیوں پر چلتی رہی تھی ان کی نظر میں آج وہ کیا تھی؟!ا سکا دل بیٹھا جا رہا تھا چہرہ پر کرب کی چادرسی تنی ہوئی تھی جیسے ماضی کے جزیروں سے کوئی اسے آوازدے رہا ہودماغ کے کینوس پر ایک دھندلی سی تصویر ابھر آئی یہ !؟ یہ ؟!یہ چہرہ!یہ مجھے کیوں یادآ رہا ہے ؟ نہیں یہ سوال ہی غلط ہے !اس چہرہ کومیں بھولاہی کب تھا ؟
یہ ہمہ وقت میری نظروں کے سامنے میرے ساتھ ساتھ رہا ہے ہاں میں ایک شادی شدہ مشرقی عورت تین بچوں کی ماں ہوتے ہوئے اس گناہ کی مرتکب ہوئی ہوں کچھ کام انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتے کچھ یادیں ذہن سے کبھی فراموش نہیں ہوتیں نا سوربن کر رستی رہتی ہیں۔ یادوں کی بازگشت اسے پر یشان کرتی رہی ہے کیا میں نے کچھ کھودیا ہے ؟
نہیں !میں نے جوچاہاپایا ہی کب تھا جوکھونے کا سوال پیدا ہوتا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ دوڑ کرجائے اور شکیب احمد کے قدموں پر اپنا سر رکھ دے جو آج تک اپنے وعدہ پر قائم تھا کہ وہ کبھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں اس رات کی مہک کو وہ کیسے بھول سکتی ہے جو اس کی ساری زندگی پر محیط ہو گئی تھی اس رات اس کی جگری دوست رخسانہ کی شادی تھی مہمان آہستہ آہستہ رخصت ہو رہے تھے اابجے جلوہ کی رسم ادا ہو رہی تھی قریبی رشتے دار جمع تھے لڑکیاں دلہن کو اور ایک دوسرے کو ستا رہی تھیں کچھ دور کھڑے لڑکے ان کے دبے دبے قہقہوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے ان ہی لڑکوں کے بیچ وہ دشمن جان ودل شکیب بھی تھے اس کی طرف ٹکٹکی باندھے یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہاں ان دونوں کے سواکوئی نہ ہودونوں ایک دوسرے کو گم صم کھڑے گھورے جا رہے تھے آنکھیں وفورشوق سے دمک رہی تھیں نظریں جیسے کہہ رہی تھیں تم ہی توہو جسکی مجھے تلاش تھی دونوں کے ہونٹوں پر طمانیت بھری مسکراہٹ تھی۔ دوسرے دن شکیب نے اپنی ماں کو رفیعہ کے گھر بھیج دیا۔ رفیعہ کی ماں نے خاطرمدا رات کے بعد معذرت کرتے ہوئے بتا یا کہ اس کی
خالہ زاد بہن نے اپنے بیٹے کے لئے بچپن ہی میں رفیعہ کو مانگ لیا تھا اور ا سکی شادی کی تیاری ہو رہی ہے شکیب کی ماں اداس دل لئے لوٹ گئیں۔ شکیب نے رخسانہ کے پیرپکڑ لئے اور کہا کہ وہ صرف ایک بارکسی طرح رفیعہ سے ملادے۔ رخسانہ کے منت سماجت کرنے اور اپنی دوستی کا ، خدا کا واسطہ دینے پر وہ دھڑ کتے دل کو سنبھالتی شکیب سے ملنے گئی دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے مافیہاسے بے خبربیٹھے رہے زبانیں گنگ تھیں اور نظریں جیسے زبان بن گئی تھیں چاہتے تھے کہ وقت کی رفتار تھم جائے اچانک شکیب نے رفیعہ کے ٹھنڈے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا :
’’رفیعہ کیا تم اپنی شادی سے انکارنہیں کر سکتیں ؟ رفیعہ نے بھیگی بھیگی پلکیں اٹھا کرشکیب کی طرف دیکھا
’’ شکیب یہ ضروری نہیں کہ انسان کسی چیزکی خواہش کرے اور وہ اسے حاصل ہوجائے زندگی میں آرزؤں اور تمناؤں کا خون ہوتا رہا ہے !لوگ پھر بھی زندہ رہتے ہیں !بیٹیاں صدیوں سے ماں باپ کے حکم کی پابند رہی ہیں ماں باپ کا مان رکھتی ہیں !شکیب !ماں باپ کی خوشیوں کی لاش پرمیں اپنی چاہتوں کا محل تعمیرکرنا نہیں چاہتی !‘‘
’’ رفیعہ میرا کیا ہو گا ؟ تم سے ہمیشہ کی دوری میں برداشت نہ کر سکوں گا ‘‘
’’ یوں سمجھیں کہ تقدیرنے ہمیں ایک دوسرے کے لئے نہیں بنایا آپ ہاؤ زسرجن شپ کر لیں میں آپکو اچھے مسیحاکے روپ میں دیکھنے ایک دن ضرورآؤں گی آپ مجھے بھولنے کی کوشش کریں ‘‘ رفیعہ کی آنکھیں کب سے جھرنے بہا رہی تھیں اسے پتہ ہی نہ چلا تکیہ بھیگ گیا تھا۔ اس کا دل شکیب سے ملنے کے لئے مچل اٹھا تھا !کون ہے وہ ؟احساس کا یہ نازک رشتہ اسقدر مضبوط کیوں ہے جو آج تک ٹوٹ نہ پایا۔ رخسانہ نے بتا یا تھا کہ شکیب نے ابھی تک شادی نہیں کی ہے وہ آج بھی اپنے وعدہ پر قائم ہے کیوں ؟
رات کا پچھلاپہرتھا اسے ابھی تک نیند نہیں آئی تھی۔ اس نے چھوٹے لڑکے کی شادی طئے کر دی تھی جو عنقریب ہونے والی تھی تیاری تقریبا ًہو چکی تھی جو کام رہ گئے تھے وہ بڑے بیٹے اور بہوکے حوالے کر دئے تھے وہ باہر سے آنے ہی والے تھے اس خیال نے اسے ہمیشہ پریشان رکھا کہ جسطرح بڑے بیٹے نے اپنی دنیا بہت دور بسالی ہے اسی طرح چھوٹا بھی اس سے دورہوجائے گا حالانکہ وہ بچوں کو اپنی خوشی سے اپنی زندگی جینے کی آزادی دینا بھی چاہتی تھی لیکن آنے والے دنوں کی تنہائیوں کے تصور سے وہ لرزبھی جاتی تھی۔ اسے صبح کا بے چینی سے انتظار تھا رات کے سوگوارلمحے آہستہ آہستہ سرکتے جا رہے تھے وہ مضطرب سی کروٹیں بدلتی رہی۔ صبح ہو گئی اس کے دل کی حالت قدرے سنبھل گئی تھی معمول کے کام نپٹائے پھر آئینے میں اپنے سراپاکو غور سے دیکھا کتنی بدل گئی تھی وہ اپنے آپ پر نظر ڈالنے کی فرصت ہی کب ملی تھی آج دیکھا تو جسم بھاری بھر کم لگ رہا تھا سرمیں چاندی کے بے شمار بال جگمگ کر رہے تھے ہاتھ پاؤں بھدے اور میلے ہو گئے تھے نیم گرم پانی سے نہانے کے بعد وہ نکھرسی گئی تھی پسند یدہ آسمانی ساڑی نکالی یہ رنگ شکیب کو بھی پسند تھا۔
ہلکا سامیک اپ کر کے بالوں کا جوڑ ابنالیا پھر اپنے سراپے کاجائزہ لیا توکانی فرق محسوس کیا اسے دیکھکر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے کرب وبے چینی میں جاگ کر رات گزاری ہے۔ لیکن یہ کیا ؟!اسے چکرسی محسوس ہونے لگی وہ سنبھلتے سنبھلتے گرگئی۔ ۔ ۔ دوسرے دن اسے ہوش آیا اس کے بیڈکے قریب دونوں بیٹے بیٹی اور بہوکھڑے ہوئے تھے وہ پھٹی پھٹی اجنبی نگا ہوں سے انھیں دیکھ رہی تھی جیسے انھیں پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اسے ڈاکٹر شکیب احمد کے ہاں لے جائیں وہ سنٹیرنیورولاجسٹ ہیں۔
ڈاکٹر شکیب کانام سن کر رفیعہ نے دونوں آنکھیں کھول دیں اس کی آنکھیں سرخ انگا رہ سی تھیں جنھیں پھر موندلیا۔ اس نے بڑے بیٹے کی آواز سنی کہہ رہا تھا ’’ جانے انھیں کیا ہوا اچھی بھلی تھیں اگر یہی حال رہاتو مشکل ہو گی میں تمہاری شادی کے سلسلے میں آیا تھا وہاں بچوں کے اسکول کھلنے والے ہیں مجھے جلدی واپس جانا ہے ‘‘ چھوٹے نے کہا’’ ہاں بھائی جان میری ملازمت بھی پرمنینٹہونے والی ہے میرا رخصت لینا مناسب نہیں ہے شادی کیلئے مشکل سے منظورہوئی ہے اگر ماں کو دواخانہ میں شریک کرنے کی نوبت آئی توشازیہ انکے ساتھ رہیگی کیا خیال ہے ؟
شازیہ نے فور اجواب دیا ’’ کیا آپ لوگ میرے گھر کے حالات سے واقف نہیں ہیں میں بھلاکیسے رہ سکتی ہوں میرے بچے بھی تو اسکول جاتے ہیں بہترہو گا کہ ہم کسی قریبی رشتے دارکی تلاش کریں جس پر کوئی ذمہ داری نہ ہودوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ معقول تنخواہ پرکسی ملازمہ کو رکھ لیا جائے ‘‘ سب خاموش تھے رفیعہ سب کی باتیں غور سے سن رہی تھی ان کے الفاظ بجلی بن کر اس کے دل پر گرے تھے دل کی دھڑ کنیں جیسے اک لحظہ کے لئے رک گئی تھیں وہ ساکت وجامدہو گئی جیسے اس کی روح نکل رہی ہو اس کی ریاضت وعبادت سب اکارت گئیں کسی نے اس کے دامن کو رواداری کے چند پھولوں کا بھی مستحق نہیں سمجھا وہ دامن جسے پھیلا کروہ ہمیشہ ان سب کی خوشیوں اور کا میابیوں کی دعائیں مانگا کرتی تھی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے جنھیں چھپانے کے لئے اس نے ایک چیخ مارکر دوسری طرف کروٹ بدللی سب نے یہی سمجھا کہ اب اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اسے ڈاکٹر شکیب احمد کے پاس لے جایا گیا۔ وہ موجودنہیں تھے۔
رفیعہ کو اسٹریچرسے اتار کرایک بیڈپر لٹادیا گیا دونوں بھائی قریبی ہوٹل میں جابیٹھے شازیہ اکیلی بیٹھی ہوئی تھی اسے نیند لگ گئی۔ کچھ ہی دیربعد شکیب آ گئے آتے ہی رفیعہ کی کیس شیٹ دیکھنے لگے رفیعہ دوسری طرف منہ کئے لیٹی تھی کیس شیٹ میں نام پڑھ کراسے پکاراتو وہ ایک جھٹکے سے پلٹی دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو دیکھتے رہ گئے !شکیب ؟ وہی چہرہ وہی بولتی آنکھیں وہی مانوس سی آواز !
’’رفیعہ !رفیعہ !یہ تم۔ ۔ ۔ کیا ہوا تمہیں ؟تمہاری یہ حالت کب سے ہے ؟
رفیعہ نے شکیب کا ہاتھ پکڑ لیا اور آنکھیں بندکر لیں ’’ میں خواب تونہیں دیکھ رہی ہوں تم میرے سامنے ہومجھ سے مخاطب ہوکیا یہ حقیقت ہے ؟
’’ہاں رفیعہ یہ حقیقت ہے آنکھیں کھولونا ‘‘ میری طرف دیکھو‘‘
’’شکیب !میں نے تم سے کہا تھا نا تمہیں مسیحاکے روپ میں دیکھنے کے لئے ایک دن ضرورآؤں گی تم سے ملنے کی شدیدخواہش نے کئی دن سے بے چین کر رکھا تھا میں آنے کی تیاری کر رہی تھی کہ طبعیت بگڑ گئی شایدبیماربن کراپنے مسیحاکے پاس آنا تھا ‘‘
رفیعہ نے آنکھیں بندکر لیں تب ہی بچے آ گئے شازیہ بھی جاگ گئی بیٹوں کے پوچھنے پر ڈاکٹر شکیب نے بتا یا کہ ’’ نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے زیادہ خوشی یارنج وفکرسے دماغ متاثر ہوتا ہے بہت سے امراض جن میں لوگ مبتلاہیں دماغی دباؤ کا نتیجہ ہیں پشیمانی ، مایوسی ، بے اعتمادی وبے اعتنائی اپنوں کی بے مروتی اور چاہنے اور چاہنے جانے کی خواہش اگر پوری نہ ہوئی ہوتویہ سب انسانی دل ودماغ اور جسم کو مجروح کر دیتے کمزوربنادیتے ہیں میں نے ان کی کیس شیٹ دیکھی ہے دوائیں بھی لکھ دی ہیں علاج میں وقت لگے گا فی الوقت انھیں دواخانہ میں رکھنا ہو گا ‘‘
’’ٹھیک ہے ڈاکٹر ہم آپ کی تعریف سن کرآئے ہیں آپ علاج شروع کر دیں اور ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس مقررکر دیں ‘‘بڑے لڑکے نے کچھ رقم ڈاکٹر کے حوالے کی اور سب چلے گئے۔ ’’ بتاؤ روفی تمہیں کیا دُکھ ہے میں تمہارے تمام دکھ سمیٹ لوں گا۔ تمہاری شادی کے بعد میں امریکہ چلا گیا تھا وہاں کی رنگین فضاؤں میں بھی تمہیں بھلانے کی کوشش میں ناکام رہا اور وطن واپس چلاآیا آنے کے بعد معلوم ہواکہ تمہارے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے کیا بچے تمہارا خیال نہیں رکھتے ؟ ‘‘
’’ اب انھیں میری ضرورت نہیں ہے آج اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ میری اس حالت کا انھیں کوئی دکھ کوئی احساس نہیں ہے اور جہاں احساس نہیں ہوتا وہاں کوئی رشتہ باقی نہیں رہ جاتا آج میں اپنے آپ کو تنہامحسوس کر رہی ہوں ‘‘
’’ روفی میں تمہارے ساتھ ہوں تم سے ملنے کی آرزومیں جیتا رہا ہوں تمہاری پکارہی مجھے ہزاروں میل دورسے کھینچ لائی ہے کیا تم اب بھی۔ ۔ ۔
’’ شکیب میں پہلے والی رفیعہ نہیں ہوں کیا تم میرے چہرہ پر عمرکے سائے نہیں دیکھ رہے ہو؟ میں ایک ٹمٹماتا چراغ ہوں ‘‘
’’رفیعہ تم آج بھی میرے لئے وہی ہوجسکی چاہت میرے دل میں تازہ ہے آؤ ہم دونوں مل کر گزرے لمحوں کوآوازدیں اپنے ماضی میں لوٹ کرحقیقی مسرتوں کو حاصل کر لیں میں تمہیں کہیں نہ جانے دوں گا اب تم میری ہو صرف میری !
’’شکیب !شکیب۔ ۔ ۔ میرے مسیحا!رفیعہ زاروقطاراور ہی تھی
’’ اب کسی بات کا غم نہ کرو ہم ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملا کرزندگی کا باقی سفرپورا کریں گے میں بہت جلدتمہیں سوئٹنر رلینڈلے جاؤں گا وہاں تمہاری صحت بہت اچھی ہوجائے گی تم نے آج تک سب کی خدمت کی ہے اب میں تمہاری خدمت کروں گا ‘‘ رفیعہ شکیب کے چہرہ کو تکے جا رہی تھی اعتماداور طمانیت کا نورچہرہ پر جھلک رہا تھا دوسرے دن ڈاکٹر شکیب نے ہیرے کی خوبصورت سی انگوٹھی رفیعہ کی انگلی میں پہنادی۔
*****
٭٭٭٭٭٭٭٭