صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بادۂ کہن
احمد علی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ان سے شکوہ کیا جاہل ٹھہرا
میں ہی خود پردۂ حائل ٹھہرا
عشق ناکام نہیں ہوسکتا
وہی رستہ وہی منزل ٹھہرا
نہ ملی کون و مکاں میں راحت
تم کو دیکھا تو میرا دل ٹھہرا
ڈھنگ ملنے کے نرالے دیکھے
مٹ گیا جو وہی واصل ٹھہرا
جو ہوا آپ کا منظورِ نظر
وہی شایانِ سلاسل ٹھہرا
ہوئی کونین سے الفت سب کو
تو جو کونین کا حاصل ٹھہرا
مقصدِ خاص تھا جس دل میں رقم
وہی دل صفحۂ باطل ٹھہرا
بٹ گیا تفرقہ نفس و کمال
جسے دیکھا وہی کامل ٹھہرا
مے کشوں کو ترے تسکین کہاں
بحرِ ذخار بھی ساحل ٹھہرا
چشم ہر سو نگراں پیدا کر
کھائی چوٹ اس نے جو غافل ٹھہرا
تھا فلک سے بھی سوا طاقت میں
جو ترے راز کا حامل ٹھہرا
پھر کسی دید کے قابل نہ رہا
جو تری دید کے قابل ٹھہرا
خضر بھی چھوڑ گئے رستے میں
شوق سالارِ قوافل ٹھہرا
زندہ وہ تھا جو رہا مثل چراغ
جل کے بھی رونقِ محفل ٹھہرا
حیف اے دل کہ رہا تو محروم
آئینہ دید کے قابل ٹھہرا
ہم وہ آئینہ ہیں جو آئینہ
آئینہ گر کے مقابل ٹھہرا
دو جہاں دیں تو توجہ نہ کرو
میں فقط آپ کا سائل ٹھہرا
غیرتِ عشق اگر ہے احمدؔ
دوسروں کو نہ وسائل ٹھہرا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
زہر دیتے بھی نہیں زعم مسیحائی بھی
تپ فرقت ہے طبیبو! غمِ تنہائی بھی
حسن اور حسن پہ ہے دعوے یکتائی بھی
بدلی نیت کی طرح سمت جبیں سائی بھی
موت کے منہ میں جیا کرتے ہیں زخمی تیرے
زہر بھی ہے دم خنجر میں مسیحائی بھی
عشق کے حملہ اول ہی میں دل ختم ہوا
ہوش پرواں ہوئے ٹھہری نہ توانائی بھی
جب گری برقِ تجلی تو رہا خشک نہ تر
آگ میں اہلِ نظر بھی ہیں تماشائی بھی
اپنی آزادی کو روتی ہے قفس میں بلبل
آئی کیا خاک جو اُس وقت سمجھ آئی بھی
ساری امیدیں تر و تازہ ہیں آخر دم تک
ہیں غضب تیرے ستم بھی ستم آرائی بھی
جب مری جاں سے ہے وابستہ تری مشق ستم
جور کے ساتھ ہو کچھ حوصلہ افزائی بھی
مدد اے خضر کے رستے ہیں بہت پیچیدہ
فکر گردش میں ہے چکر میں ہے دانائی بھی
ہوں صفا کیش تو اغیار ہیں یاروں سے سوا
نہ ہو اخلاص تو اغیار بھی ہیں پھر بھائی بھی
اک ترے غم نے کیا سارے غموں کو زائل
ہے فلاطون زمانہ ترا سودائی بھی
آبِ رحمت کی جگہ برق ہی گرتے دیکھی
گر مری خشک زراعت پہ گھٹا چھائی بھی
عشق ہے عشق تو پھر ہجر کی برداشت کہاں
چارہ بے فائدہ بے کار شکیبائی بھی
اس نے تو آپ بلایا تھا کہ حالات سنے
میں ہی گم ہوگیا جاتی رہی گویائی بھی
اے خرد ہم پہ گراں ہے یہ ترا لطفِ مدام
دلِ بیمار کو درکار ہے تنہائی بھی
بُتِ مغرور کی ٹھوکر بھی میسّر نہ ہوئی
کی عزیزوں نے بہت ناصیہ فرسائی بھی
ان سے ملنے کے لیے شوقِ طلب تھا رہبر
بے خبر عقل تھی نادان تھی دانائی بھی
چشمِ بیمار کی چولیں بھی نہ سنبھلیں اے دل
دیکھ لی ہم نے تری معرکہ آرائی بھی
چھوڑا اس قصے کو اے نامہ بر اتنا کہہ دے
پائی جاتی ہے کچھ امیدِ پذیرائی بھی
کھوج اس آہوئے رم دیدہ کا ملنا معلوم
بادہ پیما تھی یہ بادیہ پیمائی بھی
خوف ہے رنگ بنا لائیں نہ دونوں مل کر
سادگی بھی تری آفت ہے خودآرائی بھی
کی نئے جور کی تمہید جو اُس ظالم نے
حال پر میرے عنایت کوئی فرمائی بھی
اپنی کچھ فکر نہیں راز نہاں کا ہے خیال
میری رسوائی میں ہے آپ کی رسوائی بھی
خویش و احباب کو جن کے لیے تم نے چھوڑا
احمدؔ ان کو نہیں اقرارِ شناسائی بھی
٭٭٭٭٭٭٭٭