صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


بچوں کی دنیا

اردو تہذیب ڈاٹ نیٹ


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

                                ٹیکسی کا انعام

میں پیدا ہوا تھا اور اسے بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔اس نے دن رات محنت کر کے علم حاصل کیا اور چند ہی سال کے اندر بہت بڑا عالم بن گیا جلد ہی اس کے علم اور دانائی شہر دور دور تک پھیل گئی اور وہ لوگوں میں عوالدین (یعنی دین کا مددگار)کے لقب سے مشہور ہو گے ،مگراس کی غریبی دور نہ ہویا وہ تنگی ترشی سے گزرا کرتا رہا۔اللہ کی قدرت کہ ایک دن نہ صرف اس کی غریبی دور ہو گئی،بلکہ وہ حکومت کا وزیر بن گیا۔


یہ کیسے ہوا؟یہ ایک عجیب قصہ ہے جو یحییٰ بن ہمیرہ نے خود بیان کیا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ میں سخت تنگ دست تھا اور بڑی تنگی ترشی سے زندگی کے دن گزار رہا تھا ۔اس زمانے میں کچھ لوگوں نے اپنے تجربے کی بنا پر مجھے بتایا کہ حضرت معروف کرخی رحمة اللہ علیہ (ایک مشہور بزرگ)کی قبر پر جا کر اکثر دعا قبول ہو جاتی ہے ۔یہ سن کر میں وہاں گیا اور حضرت معروف کرخی ؒ بخشش کے لئے دعا مانگی ،پھر اللہ تعالی ٰ سے اپنی غریبی دور ہونے کی دعا بھی کی۔میں دعا کر کے واپس آ رہا تھا کہ راستے میں ایک ٹوٹی پھوٹی پرانی مسجدنظرآئی میں نے سوچا کہ تھوڑی دیراس مسجد میں بیٹھ کرسستالوں اور دو نفل نماز بھی پڑھ لوں ۔


یہ سوچ کر میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بیمار بوڑھا وہاں لیٹا ہوا ہے اور راہ رہا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کوسخت تکلیف ہے اور اس کا آخری وقت آ پہنچا ہے میں نے اس سے کہا:’’بابا جی!کوئی چیز کھانے کو جی چاہتا ہو بتلاؤ۔‘‘


اس نے کہا :’’خربوزہ کھانے کو میرا دل بہت چاہ رہا ہے ۔‘‘


میں دوڑ کر بازار گیا اور خربوزہ خرید کر لے آیا۔بوڑھے نے خربوزہ کھایا تو بہت خوش ہوا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔پھر وہ گھسیٹتا ہوا مسجد کے ایک گوشے میں پہنچا اور زمین کھود کر وہاں سے ایک برتن نکالا،جس میں پانچ سودینار (سونے کے سکے )تھے ۔بوڑھے نے یہ دینار برتن سے نکال کر میرے سامنے رکھ دئیے اور کہا:’’پیارے دوست!یہ دینار آپ رکھ لیں ۔آپ انہیں لینے کے حق دار ہیں ۔‘‘


بوڑھے نے آہ بھر کر کہا:’’میرا ایک بھائی تھا۔بڑا پیارا ماں باپ جایا بھائی،لیکن برسوں سے وہ ایسا گم ہوا کہ معلوم نہیں جیتا ہے یا مر گیا ہے ۔میں نے ایک بارسنا تھا کہ وہ مرگیا۔میں رصافہ(عراق کا ایک شہر)کا باشندہ ہوں ۔وہاں سے آنے کے بعد میں نے بھائی کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘


اتنا کہہ کر بوڑھے نے آخری سانس لیا اور فوت ہو گیا۔میں نے اس کے کفن دفن کاکا انتظام کیا اور اس سے فارغ ہو کر دریائے دجلہ کے دوسرے کنارے پر جانے کے لئے گھاٹ پر پہنچا۔پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک ملاح نے مجھ سے کہا کہ چلئے میں آپ کو دریا کے پار لے چلتا ہوں ۔میں اس کی کشتی میں بیٹھ گیا اور اس سے پوچھا:’’تم کہاں کے رہنے والے ہو؟‘ ‘


اس نے کہا :’’رشافہ کا۔لڑکپن ہی میں یہاں آیا تھا اور یہیں آ کر ہوش سنبھالا۔‘‘


میں نے پوچھا:تمہارا کوئی رشتے دار نہیں ؟‘‘


اس نے کہا:’’صرف ایک بھا ئی تھا،مگرسالہا سال سے ا س کا کچھ پتا نہیں ۔‘‘


میں نے غورسے اس کی شکل دیکھی تو وہ مرنے والے بوڑھے جیسا دکھائی دیا ۔میں سمجھ گیا کہ یہی اس کا بھائی ہے ۔‘‘


میں نے اس سے کہا:’’بھائی اپنی چادر کا پلو پھیلاؤ۔‘‘اس نے پلو پھیلایا تو میں نے اس میں بوڑھے کے دئیے ہوئے پانچ سودینارڈال دئیے ۔


وہ حیران رہ گیا اور پوچھا :’’یہ دینار آپ مجھے کیوں دے رہے ہیں ؟‘‘میں نے ساراقصہ اسے سنایا اور اس کو بتایا کہ یہ تمہارے مرحوم بھائی کا مال ہے اور تم ہی اس کے وارث ہو۔‘‘


ملاح نے کہا:’’آدھے تم لے لو۔‘‘


میں نے کہا:’’نہیں بھائی!میرا ان پر کوئی حق نہیں ،یہ سارے دینار تم کو مبارک ہوں ۔‘‘ملاح نے مجھے بہت دعائیں دیں اور دینار رکھ لئے ۔وہاں سے آ کر میں نے شاہی دربار میں نوکری کے لئے عرضی پیش کی ۔اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل کیا اور عرضی پیش ہوتے ہی مجھے خزانچی مقرر کر دیا گیا۔میں نے بڑی دیانت اور محنت سے کام کیا،یہاں تک کہ ترقی کرتے کرتے وزیر کے عہدے تک پہنچ گیا۔مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات کا انعام دیا کہ میں نے غریب ملاح کواس کا حق پہنچا دیا۔

٭٭٭

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول