صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
مشرف عالم ذوقی سے بات چیت
مختلف ادباء
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
مشہور ہندی کتھا کار سدرشن نارنگ کی مشرف عالم ذوقی سے ایک مختصر گفتگو
سوال: دونوں زبانوں میں لکھنے والوں کے ساتھ ایک عام دشواری یہ ہے کہ آخر اُنہیں کس زبان کا تسلیم کیا جائے ؟
جواب: آپ نے بات بالکل صحیح جگہ سے شروع کی ہے ، میری خود بھی یہی خواہش تھی کہ دونوں زبانوں میں لکھنے والوں کے مسئلہ کو ذرا صحیح طریقے سے اٹھایا جائے۔ زبان کسی قوم کی جاگیر نہیں ہے۔ اگر کوئی تخلیق کار دو زبان جانتا ہو اور وہ دونوں زبانوں میں لکھتا ہے تو اُسے دونوں ہی زبانوں میں اپنانے میں پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ اگر پریم چند کی بات کریں تو پریم چند نے بھی دونوں ہی زبانوں کو اپنایا۔ شروع میں وہ اردو میں لکھتے رہے ، پھر ہندی میں بھی لکھنا شروع کر دیا۔ صرف پریم چند اس معاملے میں خوش قسمت رہے کہ اُنہیں اردو اور ہندی دونوں ہی زبانوں میں پائینیر تسلیم کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اُن کی ہندی اور اردو کہانی کی بدلی بدلی فضا کو لے کر اُن پر فرقہ پرست ہونے کا الزام بھی تھوپا گیا، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پریم چند آج بھی اردو اور ہندی کہانی کے بانی کے طور پر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہی خوش قسمتی اُپیندر ناتھ اشک یا دیویندر ستیارتھی کے ساتھ نہیں رہی۔ ’گرتی دیواریں ‘ جیسی کتاب کے مصنف اُپیندر ناتھ اشک یا ستیارتھی کو جس طرح سے آج دونوں ہی زبانوں میں ریجکٹ کر دیا گیا یہ افسوسناک ہے۔ جہاں تک میرا سوال ہے میں نے شروع سے ہی دونوں زبانوں میں لکھنا شروع کیا____ کہانی میں زبان کی سطح پر میں نے وہی زبان استعمال کی جس سے میں دونوں ہی زبانوں میں اپنی بات کہنے میں اہل تھا۔ یعنی کہ ہندستانی زبان۔ میں اُسی طرح اپنے آپ کو اردو کا افسانہ نگار مانتا ہوں جیسے ہندی کا۔ میں ہندی میں جیسا ہوں ٹھیک اُسی طرح اردو کا بھی ہوں ، ہاں اِس نظریئے سے مجھے ہندی کے نقاّدوں سے شکوہ ضرور ہے کہ مجھے ہندی کا تسلیم کرنے کے باوجود بھی جب نام گنوانے کی باری آتی ہے تو اُن پر میرا اردو لکھنا کچھ زیادہ ہی حاوی ہو جاتا ہے۔
سوال: آج جب یہ دنیا ایک چھوٹے سے گلوبل ویلیج میں داخل ہو چکی ہے۔ آپ اپنی کہانیوں کو کہاں دیکھتے ہیں ؟
جواب: بات گلوبل ویلیج میں داخل ہونے یا انفارمیشن ٹکنالوجی میں ہونے والے انقلاب کی نہیں ہے۔ سچ پوچھئے تو ایک طرف ایسے انقلاب کا چونکانے والا عمل ہے تو دوسری طرف ہماری کہانی، آج بھی دلت سے متعلق ادب اور خواتین سے متعلق ادب جیسے ہزاروں تنگ نظریئے کا سامنا کر رہی ہے۔ کیا صرف ایک چھوٹی سی تنگ زمین کو بنیاد بنا کر ہم کوئی بین الاقوامی کہانی کا تانا بانا بُن سکتے ہیں ؟ حیرانی تب ہوتی ہے جب ایک بے حد سپاٹ کہانی آپ کی علاقائی زبان کے بوجھل لباس میں ، آپ کے سامنے آ جاتی ہے۔ جسے پڑھنے کے لئے کنواں کھودنے سے زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے۔ کہانی اتنا لمبا سفر طے کرنے کے باوجود آج بھی ہندی میں کنویں کے مینڈک کی طرح کسی تنگ قید خانے میں یا اندھیرے کنویں میں گھٹن کا شکار لگتی ہے۔ فنتاسی کی کمی، تصور یا جدید تر خیالات سے الگ یا بغیر کسی نئے تجربے کے کہانی آج بھی، جب اُسی پریم چند کے زمانے میں جیتی ہوئی نظر آتی ہے تو دکھ ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے میں ایسی کسی کہانی کا تصور نہیں کر سکتا جس میں علامت یا فنتاسی نہ ہو۔ ہم آخر اپنی ہی کہانیوں کی ایک نئی یا جدید زمین کیوں نہیں تیار کرتے ؟ مجھے لگتا ہے ، ہندی کے نقاّدوں کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی اس پر بھی بڑا تعجب ہوتا ہے کہ کیا کسی کا دلت ہونا، یا بدقسمتی سے زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہونا نقادوں کی نظر کو اتنا پسند آتا ہے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے عظیم بن جاتا ہے۔ اپنی بات کہوں تو شروع میں میرا فلک محدود تھا یعنی جب لکھنا شروع کیا تو ترقی پسندی کی ایک تنگ زمین سامنے تھی۔ میں نے اپنا ادب اسی پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر لکھنا شروع کیا۔ اِس کے بعد، آزادی کے دوران ہونے والے دنگے اور اقلیتوں کے مسائل پر میرا دھیان گیا۔ لگا، اِن پر بھی لکھنے کی ضرورت ہے۔ تب بہار میں فساد برپا ہونا ایک عام سی بات تھی۔ نفرت کی خلیج تو بہت پہلے ہی پڑ چکی تھی۔ مسلمان لگاتار گھائل کر دینے والے سوالوں کی زد میں تھے۔ اس طرح اپنی شروعاتی کہانیوں پر غور کرتا ہوں تو یہ کہانیاں آزادی سے پہلے کی غلامی، تقسیم کا درد اور اُس کے بعد سامنے آنے والے فرقہ وارانہ فساد کی سیاہ تاریخ تک پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ ایک بات جو میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی، وہ تھی کہ آخر پندرہ کروڑ سے زیادہ مسلم آبادی کو آپ اقلیت کیسے کہہ سکتے ہیں۔ غلام بخش، بیان، ذبح، سب سازندے سے لے کر تازہ افسانوی مجموعہ لیبارٹری (ہندی) تک میں مسلسل اپنے اس سوال سے لڑتا بھڑتا رہا کہ آخر اتنی بڑی مسلم آبادی کو اقلیت کی جگہ دوسری بڑی اکثریت کیوں نہیں کہا جاتا۔ 90کے بعد کہانی کی سطح پر میرے انداز فکر میں بڑا فرق آیا۔ میں کہانی کو سپاٹ طرز پر دیکھنے سے بچنا چاہتا تھا۔ ممکن ہے اس درمیان جو کچھ ’بڑا‘ پڑھا تھا اُس کا بھی اثر ہو لیکن ایک وقت آتا ہے جب آپ تخلیقی سطح پر ناسترودیمس کی تیسری آنکھ کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی کے نئے فلسفے آپ کی کہانیوں پر حاوی ہونے لگتے ہیں۔ لیکن یہ وہ وقت تھا جب میں سپاٹ کہانی کے جنگل سے آزاد ہو کر اپنی الگ پہچان یا راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا۔ میرے نزدیک زندگی کے معنی بہت حد تک بدلے تھے اور میں اپنی کہانی کو اپنے ماحول یا گھر کی چہار دیواری میں گھٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سچ کہوں تو اس سطح پر اگر ہندی میں مجھے کسی نے چونکایا ہے تو وہ صرف ایک نام ہے الکا سراوگی۔
سوال: تو ذوقی صاحب، اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آپ نے مسلمانوں سے متعلق ادب پر تو لکھا ہے لیکن دلت سے متعلق ادب اور عورت سے متعلق ادب …؟
جواب: جیسا میں نے پہلے ہی عرض کیا، میں کہانی کو ان دائروں سے الگ دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں۔ اگر میں دلت پر لکھنا بھی چاہوں گا، تو جھکا ہوا، غربت کا مارا دلت میرے سامنے نہیں ہو گا۔ دلت آج اس مہذب ترین سماج میں بڑے بڑے عہدوں اور رتبوں پر نظر آئیں گے۔ آخر ہم خود کو ایک تنگ نظام میں قید یا گھٹا ہوا کیوں محسوس کرتے ہیں ؟ ڈاکٹر امبیڈکر کے انقلابی خیالات کے بعد، اتنا لمبا سفر طے کرنے کے باوجود ہم آج بھی اگر اس تنگ نظر لفظ دلت میں گھرے ہوئے ہیں تو یہ افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ دنیا تیزی سے بدلی ہے ، کہانی صرف چار گھر کی نہیں ، چار سو گھروں کی بھی ہوتی ہے۔ ممکن ہے یہ مسئلے آج بھی موجود ہوں لیکن سورج پال چوہان جیسے لوگ بھی ہیں ، جن کی آپ بیتی پڑھ کر ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ میں بہت ہی زیادہ دل آزار یا Pathos میں ڈوبی کہانیاں نہیں لکھ سکتا۔ اس معاملے میں ، میں ’ایڈگر ایلن پو‘ کے قریب ہوں جو زندگی بھر بیمار رہا لیکن آپ اُس کی کہانیوں میں بیماری یا دکھ تلاش نہیں کر سکتے۔ اب رہی عورت سے متعلق ادب کی بات۔ عورت کو میں ویسے ہی دیکھتا ہوں جیسے مرد ہیں۔ اس لئے مجھے روتی گاتی تہمینہ درّانی میں دلچسپی ہے نا ’ناری‘ کے دکھ کا پہاڑ اٹھائے ’اَبلا اَبلا‘ چلاتی تسلیمہ نسرین میں۔ دونوں اپنے اپنے دکھ کی ذمہ دار خود ہیں۔ ایک بار بار کے تجربے کے باوجود اپنے جسم کی کہانی یا آپ بیتی لکھنے میں مصروف رہیں تو دوسری اپنے استحصال میں ، اپنے وجود اور مذہب کی حصہ داری تلاش کرتی رہیں۔ اس لئے مجھے عصمت چغتائی زیادہ پسند رہیں یا پھر فہمیدہ ریاض، کشور ناہید یا سارا شگفتہ میری پسند میں شامل ہیں۔ آج جہاں W.W.F.کی سطح پر بھی عورت کسی سے کم نہیں ہے ، کہانی کی سطح پر مسلسل آپ اُسے ایک ستائی گئی ابلا ناری کے طور پر کیوں دیکھ رہے ہیں۔ خاص کر جس طرح آج مسلمانوں میں نکاح، طلاق یا نماز پڑھانے کے نام پر ہنگامے ہو رہے ہیں ، وہ اچانک مجھے اکیسویں صدی سے پندرہویں صدی میں کھینچ لے جاتے ہیں۔ آخر عورت مردوں کی امامت کیوں نہیں کر سکتی۔ معاملہ طلاق کا ہو یا شریعت کا، عورت کو اپنا فیصلہ خود لینے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ ڈر لگتا ہے۔ ہم آج بھی ایک گمراہ کن معاشرے میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں ہمارے مردانہ سماج اپنی خوبصورت تسلیوں سے آج بھی عورت کا استحصال کر رہا ہے۔ دراصل ان سب کی ذمہ دار ہماری تہذیب رہی ہے۔ جس کا صدیوں سے ڈھول پیٹا جاتا رہا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ رشتہ ازدواج ایک عجیب سی افسردگی اور بورڈم کا شکار ہو جاتا ہے ، سات پھیرے لینے والے کبھی کبھی ایک دوسرے کو پسند نہ کرنے کے باوجود زندگی بھر بس نبھائے جانے کے ڈھونگ میں اپنی زندگی ختم کر دیتے ہیں ، آخر کیوں ؟ اسی لئے مجھے کبھی کبھی غیر ملکی تہذیب زیادہ پسند آتی ہے۔ چار دن ہی سہی، لیکن اس چار دن میں وہ جو زندگی کا بہتر تجربہ حاصل کرتے ہیں ، ہم زندگی بھر نبھائے جانے کے ڈھونگ میں اُس سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ ایک دوغلی زندگی۔ ایک تقسیم شدہ چہرہ۔ ابھی کچھ دن قبل ماہنامہ ہنس (ہندی) نے ایک نیا کالم شروع کیا، تخلیق کاروں کو سچ بولنا تھا۔ کچھ تخلیق کاروں نے سچ کا بیڑا اُٹھایا بھی، لیکن اُن کی آپ بیتی سے بھی پوری طرح واضح تھا کہ وہ ذاتی زندگی میں دوہرے کردار کے عادی رہے ہیں۔ چلئے ، تسلیم کرتا ہوں ، لیکن اِس انٹرویو کا سچ بھی لوگ ہضم نہیں کر پائے۔ آخر کیوں ؟ سچ بولنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے ؟ شاید اسی لئے تخلیق کی سطح پر بھی وہ سچا اور ایماندار آدمی سامنے نہیں آ پاتا۔ میں صرف کہانی لکھتا ہوں۔ عورت یا مرد محض اُس کہانی کے کردار ہوتے ہیں ممکن ہے ، یہ ادب سے متعلق باتیں آج ہندی کہانی کی ضرورت ہو لیکن یہ میری تخلیق کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: ذوقی صاحب! ہندی کی باتیں تو ہو گئیں … لیکن آپ کا تعلق اردو سے بھی ہے تو کیوں نا کچھ باتیں اردو کہانیوں پر بھی کر لی جائیں۔ مین اسٹریم میں ، آپ آج کی اردو کہانی کو کہاں رکھتے ہیں ؟
جواب:اردو کہانیاں۔ سوچتا ہوں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ جس زبان نے منٹو، بیدی، کرشن چندر اور عصمت جیسے بڑے نام دیئے ، آج وہ زبان کہاں ہے ؟ کس حالت میں ہے ؟ اردو کہانیوں کی ایک سنہری، فخریہ تاریخ رہی ہے ، صرف بیدی یا کرشن چندر نہیں ، اچھا لکھنے والوں کی لمبی قطار رہی ہے۔ لیکن بھلا ہو، شمس الرحمن فاروقی کا، جنہوں نے جدیدیت کی شمع جلا کر اردو کہانی کا روشن مستقبل چھین لیا۔ یہ آدمی آج اردو کی بدقسمتی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے ، ناقابل معافی۔ اس نے اپنے پیمانے بنائے۔ اپنے ڈھول پیٹے اپنی پسند کے پتلے کھڑے کئے اور اردو کہانی کو اندھیرے میں ڈھکیل دیا۔ 2005 اس معاملے میں ایک یادگار سال ہے کہ اس سال ان کا رسالہ بند ہونے جا رہا ہے۔ میرے نزدیک اس سے بڑا جرم کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا کہ قاری کے نہیں چاہنے کے باوجود آپ اپنی پسند کے پتلے اُن پر تھوپنے کی کوشش کریں۔ اردو کے بیس پچیس برسوں میں فاروقی نے جو ذلیل ترین کام کیا وہ کسی کو قتل کرنے سے بھی زیادہ سنگین اور بڑا جرم تھا۔ عام طور پر لکھنے والے جیسے ، سیّد محمد اشرف یا خالد جاوید کو آسمان پر بیٹھانے کی مہم شروع ہوئی۔ شمیم حنفی جیسے لوگ ساتھ میں تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قاری کا غصّہ اُبل پڑا۔ یہ سارے ناٹک روز کے ناٹک تھے۔ کہیں گوپی چند نارنگ کہیں کوئی اور۔ سب اپنی ڈفلی اپنا راگ الاپ رہے تھے۔ پھر باری آئی عہدے ، رُتبے اور اکادمیوں کی، کرسی پر بیٹھے لوگوں کی۔ جیسا مافیا اردو میں ہے شاید کسی دوسری زبان میں نہیں ہو گا۔ اردو کو سر بازار رسوا اور ذلیل کرنے کی دوسری بڑی ذمہ داری نارنگ نے اُٹھائی اس وقت بین الاقوامی سطح پر اردو کے تمام چھوٹے بڑے انعام اُس کی مٹھی میں ہیں۔ دو، دوسروں کو دیتا ہے تو تیسرا خود لے لیتا ہے۔ نتیجہ ان بیس پچیس برسوں میں اردو کی جو بُری حالت ہوئی ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم ایک مردہ زبان کے گواہ بن گئے ہیں۔ نئی نسل کے نام پر اردو کا مستقبل تاریک ہے۔ نئے لوگ ہندی یا غیر علاقائی زبانوں کی طرف دوڑ لگا رہے ہیں۔
٭٭٭