صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
بادِ صبا کی بات
حزیں صدیقی
ترتیب: مہ جبین
لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
در وا ہوا نہ کوئی دریچہ کھلا کہیں
مایوس ہو کے رہ گئی میری صدا کہیں
کیونکر کسی کو چہرۂ خوشبو دکھائی دے
رنگوں کا ٹوٹتا ہی نہیں سلسلہ کہیں
لغزش کا ہر قدم پہ ہے امکاں سنبھل کے چل
زنجیر بن نہ جائے ترا نقشِ پا کہیں
دل جھومنے لگا ہے بگولوں کے رقص پر
راس آ نہ جائے دشت کی آب و ہوا کہیں
خورشیدِ پر جلال ہے یوں میرے ساتھ ساتھ
جیسے میں اپنے سائے میں چھپ جاؤں گا کہیں
گھبرا کے حبسِ شب سے ہوا کی دعا نہ مانگ
پھر شہر میں رہے گا نہ روشن دیا کہیں
مچلے ہزار دل میں تمنائے دل کہیں
ہوتی ہے اپنے پھول سے خوشبو جدا کہیں
٭٭٭
شہروں میں ایسے منظر بھی نظروں سے ٹکراتے ہیں
آنکھوں والے آتے جاتے اندھوں سے ٹکراتے ہیں
سورج تو پیاسا ہے ازل کا تاروں کو پی جاتا ہے
شبنم کے پاگل قطرے کیوں کرنوں سے ٹکراتے ہیں
تو نے یہ کیا قید لگا دی ، تیرے جیسے رنگ بھروں
کون سے میرے خاکے تیرے خاکوں سے ٹکراتے ہیں
ایک سحر کی آس میں دل کب سے انگارے پیتا ہے
ہر شب جانے کتنے سورج آنکھوں سے ٹکراتے ہیں
دہراتی ہے شب بیداری دن بھر کے سب ہنگامے
تنہائی کے سنّاٹے بھی کانوں سے ٹکراتے ہیں
وقت کے دریا کی موجوں میں روز تصادم ہوتا ہے
جاتے لمحے آنے والے لمحوں سے ٹکراتے ہیں
اب جو صبا آتی ہے چمن میں گل ہی اور کھلاتی ہے
سوکھے پتے اڑ کر ویراں شاخوں سے ٹکراتے ہیں
٭٭٭