صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تعدد ازدواج ۔ حقائق کے آئینہ میں

مولانا نور الحق رحمانی 


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

مختلف ادیان و مذاہب میں تعدد ازدواج کی اجازت


    حقیقت یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت تنہا اسلام نے نہیں دی ہے بلکہ یہ اجازت دیگر اقوام و مذاہب میں بھی موجو د ہے اور مقدس مذہبی شخصیتوں کا ہر دور میں اس پر عمل رہا ہے، انبیاء علیہم السلام جو پوری انسانیت کا جوہر اور خلاصہ اور اخلاق و روحانیت کے سب سے بڑے علم بردار ہیں جن کی پاکیزہ زندگی پوری انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے وہ بھی بڑی تعداد میں اس پر عمل پیرا رہے ہیں ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام جنہیں نہ صرف مسلمان بلکہ یہود و نصاریٰ بھی اپنا مقتدا اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں ان کی دو بیبیاں تھیں حضرت سارہ اور ہاجرہ علیھما السلام اور ان دونوں بیویوں سے نسل چلی اور ان کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بھی متعدد بیویاں تھیں اور انبیائے بنی اسرائیل میں سے بعض حضرات کے یہاں بیویوں کی تعداد سو اور اس سے متجاوز ہے۔ مثلاًً خود ان کی مذہبی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی سو بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو آزاد بیویاں اور تین سو باندیاں تھیں جن کی مجموعی تعداد ہزار کو پہنچتی ہے۔ ہندو مذہب کی محترم شخصیت راجہ دسرتھ کی تین بیویاں تھیں ، اسی طرح راج جی اور کرشن جی کے یہاں بھی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں ۔ یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ کے ممالک جن کا مذہب مسیحیت اور عیسائیت ہے اور جنہوں نے قانونی طور پر بالکلیہ اس پر بندش لگا دی ہے ان کی مذہبی کتابوں تورات و انجیل میں اس کی ممانعت کسی آسمانی نص سے نہیں ہے ۔ سترہویں صدی عیسوی کے وسط تک کلیسا اور ریاست نے اسے جائز تسلیم کرتے ہوئے اس کی اجازت دی ہے اور تین صدی قبل تک قانونی حیثیت سے اس پر عمل بھی ہوتا رہا۔ ایک مشہور اسلامی اسکالر اور اس دور کے عظیم شامی محقق ڈاکٹر مصطفی سباعی مرحوم اپنی فاضلانہ کتاب ’’المرأۃ بین الفقہ و القانون‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :

    اسلام ہی نے سب سے پہلے چند زوجیت کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ تقریباً تمام قدیم اقوام مثلاً یونانیوں ، چینیوں ، ہندوؤں ،بابلیوں ، اشوریوں اور مصریوں میں بھی اس کا رواج موجود تھا اور ان میں سے اکثر قوموں کے یہاں بیویوں کی کوئی تعداد بھی محدود و مقرر نہ تھی۔ چینی مذہب -لیکی- میں ایک سو تیس تک بیویاں رکھنے کی اجازت تھی اور بعض چینی سربراہوں کے یہاں تو لگ بھگ تین ہزار عورتیں تھیں ۔ اس کے علاوہ یہودی مذہب میں بھی بغیر کسی حد کے بیویاں رکھنے کی اجازت تھی، تمام انبیاء تورات کے یہاں بہت سی بیویوں کا پتہ چلتا ہے(ص: ۷۱)

اخلاق و مذاہب کی انسائیکلوپیڈیا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

    مسیحیت کے اولین مبلغوں نے چند زوجگی کی بھی تنقیص نہیں کی، توریت میں چند زوجگی کی ممانعت نہیں کی گئی اور نہ انجیل میں ہی ممانعت موجود ہے، قدیم یہودیوں کے یہاں اس کا رواج پایا جاتا تھا، چنانچہ یہودی علماء اسے اپنی روایات کے منافی نہیں خیال کرتے۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics P. 43)

    قرون وسطی میں تعدد ازدواج کو کلیسا نے تسلیم کیا تھا اور اس پر قانونی حیثیت سے عمل در آمد بھی تھا، علاوہ ازیں کلیسا اور ریاست دونوں کے تسلیم شدہ قانونی نظام کی حیثیت سے تعدد ازدواج منتشر طور پر ادھر ادھر سترہویں صدی عیسوی کے وسط تک موجود تھا۔ (تعدد ازدواج ص ۵۵؎ مولفہ سید حامد علی)

    ڈاکٹر محمود عباس عقاد کی تصریح کے مطابق بعض عیسائی فرقے تو تعدد ازدواج کو ضروری قرار دیتے تھے۔(المرأۃ فی القرآن للعقاد، ص : ۸۲)

                                                                                 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول