صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
ایوب خاور۔ فن اور شخصیت
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کچھ اپنے بارے میں
میں
ضلع چکوال کے ایک نواحی گاؤں میں گرمیوں کی ایک زرد سہ پہر کو پیداہوا۔ یہ
1948ء کے جون کی بارہویں سہ پہر تھی۔ ماں باپ نے میرا نام محمد ایوب خان
رکھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری اسکول میں ہوئی۔ چھٹی جماعت چکوال کے
گورنمنٹ ہائی اسکول میں اور پھر ساتویں سے میٹرک تک کا عرصہ میں نے کراچی
کے مقبولِ عام ہائی اسکول شرف آباد کے کلاس روموں میں گزارا۔ پھر کراچی ہی
کے نیشنل کالج سے بی۔ اے اور کراچی یونی ورسٹی سے اُردو ادب میں ایم۔ اے
کیا۔ اُس کے فوراً بعد ہی پاکستان ٹیلی وژن کا رپوریشن کے ساتھ پروگرام
پروڈیوسر کی حیثیت سے منسلک ہو گیا۔
زندگی سے میرا تعارف بڑے عجیب انداز میں ہوا۔ وہ اس طرح کہ میرے پاؤں گارے مٹی میں لتھڑے ہوئے اور ہاتھوں کی پوریں ریت سیمنٹ سے بھری ہوئی تھیں، بغل میں اُردو کی چوتھی کتاب اور دانتوں میں کھلا ہوا قلم تھا۔ بچپن کی دہلیز پر زندگی سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ پھر یونی ورسٹی تک پہنچتے پہنچتے محنت کے کئی رنگ اور مشقت کے کئی روپ میرے ہاتھ کا زیور اور پیروں کا چکر بنے لیکن ایک تخلیقی اُپچ تھی جو چھٹی جماعت ہی سے چوری چھپے میری روح کے کسی انتہائی گوشے میں دَر آئی تھی جو بعد میں اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کے کوریڈورز اور کلاس روموں اور لائبریریوں اور ریڈیوپاکستان کراچی کی آب و ہَوا میں میرے آگے پیچھے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور سونے جاگنے لگی لیکن میں اُ س سے باقاعدہ ہم کلام1970ء میں ہُوا۔
یہ جو میری پہلی کتاب ہے ’’گلِ موسمِ خزاں ‘‘ اسی ہم کلامی کی ترتیب ہے۔ زندگی نے جس حُلیے میں مجھے پہلی مرتبہ دیکھا تھا، اتنے برسوں میں نہ جانے کتنے بچوں کو مَیں نے اِس حُلیے میں دیکھا ہے گویا اِن تیس پینتیس برسوں میں کچھ بھی نہیں بدلا، صرف تبدیلی کی خواہش اس خطّے کی آب و ہَوا میں سُوکھے بادلوں کی طرح گرجتی رہی ہے۔ گلِ موسمِ خزاں، اسی تشنہ کامی اور اسی خواہشِ ناتمام کا پیش لفظ ہے۔
یکم جولائی/ 1991ء
زندگی سے میرا تعارف بڑے عجیب انداز میں ہوا۔ وہ اس طرح کہ میرے پاؤں گارے مٹی میں لتھڑے ہوئے اور ہاتھوں کی پوریں ریت سیمنٹ سے بھری ہوئی تھیں، بغل میں اُردو کی چوتھی کتاب اور دانتوں میں کھلا ہوا قلم تھا۔ بچپن کی دہلیز پر زندگی سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ پھر یونی ورسٹی تک پہنچتے پہنچتے محنت کے کئی رنگ اور مشقت کے کئی روپ میرے ہاتھ کا زیور اور پیروں کا چکر بنے لیکن ایک تخلیقی اُپچ تھی جو چھٹی جماعت ہی سے چوری چھپے میری روح کے کسی انتہائی گوشے میں دَر آئی تھی جو بعد میں اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کے کوریڈورز اور کلاس روموں اور لائبریریوں اور ریڈیوپاکستان کراچی کی آب و ہَوا میں میرے آگے پیچھے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور سونے جاگنے لگی لیکن میں اُ س سے باقاعدہ ہم کلام1970ء میں ہُوا۔
یہ جو میری پہلی کتاب ہے ’’گلِ موسمِ خزاں ‘‘ اسی ہم کلامی کی ترتیب ہے۔ زندگی نے جس حُلیے میں مجھے پہلی مرتبہ دیکھا تھا، اتنے برسوں میں نہ جانے کتنے بچوں کو مَیں نے اِس حُلیے میں دیکھا ہے گویا اِن تیس پینتیس برسوں میں کچھ بھی نہیں بدلا، صرف تبدیلی کی خواہش اس خطّے کی آب و ہَوا میں سُوکھے بادلوں کی طرح گرجتی رہی ہے۔ گلِ موسمِ خزاں، اسی تشنہ کامی اور اسی خواہشِ ناتمام کا پیش لفظ ہے۔
یکم جولائی/ 1991ء
٭٭٭