صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


عوض سعید

مرتّب :اوصاف سعید، اعجاز عبید


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

                             عوض سعید:مجتبیٰ حسین

میری ایک کمزوری یہ ہے  کہ میں  شرافت کے  بارے  میں  تو بے  تکان لکھ سکتا ہوں  لیکن شریف آدمی کے  بارے  میں  بالکل نہیں  لکھ سکتا۔ پچھلے  ہفتے  ڈاکٹر مغنی تبسّم نے  دہلی فون کر کے  جب مجھے  اطلاع دی کہ عوض سعید کے  خاکو ں  کے  مجموعے  کی رسم اجرا ہونے  والی ہے  تو میں  نے  مسرّت کا اظہار کیا، لیکن دوسرے  ہی لمحے  جب انھوں  نے  مجھ سے  کہا کہ مجھے  بھی اس موقع پر کچھ کہنا ہے  تو میں  نے  معذرت کا اظہار کیا۔ مغنی تبسّم نے  حیدرآباد کے  موجودہ ادبی ماحول پر روشنی ڈالتے  ہوئے  کہا کہ ’’حیدرآباد میں  اب لکھنے  والوں  کی کمی ہوتی جا رہی ہے ۔ اسی لیے  لکھنے  والوں  کو باہر سے  درآمد کرنا پڑتا ہے ‘‘۔

میں  نے  کہا ’’ عوض سعید جیسے  شخص پر لکھنے  والوں  کی کمی تو ہر دور میں  رہے  گی۔ اس کوتاہی کا تعلق حیدرآباد کے  ادبی ماحول سے  نہیں  بلکہ خود عوض سعید کی ذات سے  ہے ۔ ‘‘

بھلا بتایئے  عوض سعید جیسے  شریف، نیک اور پاک باطن آدمی کے  بارے  میں  کوئی لکھے  بھی تو کیا لکھے ۔ میں  تو خاکہ اسی شخص کا لکھتا ہوں جس میں  تھوڑی سی اوباشی ہو، عیّاری ہو، کچھ مکر ہو،کچھ فریب ہو، کچھ چھل ہو،کچھ کپٹ ہو، ہمارے  دور کا آدمی اِن ہی باتوں  سے  آدمی بنتا ہے، شرافت سے  نہیں ۔

عوض سعید سے  میری ملاقات یا دوستی کم و بیش تیس برس پرانی ہے  لیکن اس کے  باوجود میری اور عوض سعید کی دوستی کبھی خود مکتفی نہ بن سکی۔ میری مراد یہ ہے  کہ اس سے  براہِ راست دوستی نہ ہو سکی۔ جب بھی اُس سے  ملا کسی نہ کسی حوالے  یا وسیلے  سے  ملا۔ عوض اکثر شاذ تمکنت کے  ساتھ پایا جاتا تھا اور میں  جب جب شاذ سے  ملنے  جاتا تو عوض سے  ملاقات ہو جاتی تھی۔ ایک آدمی شاہ علی بنڈہ جانے  کا قصد کرے  تو راستہ میں  چار مینار تو پڑے  گا ہی۔ عوض سعید میرے  لئے  چار مینار ہی کی طرح ہے ۔ حیدرآباد میں  برسوں  رہنے  کے  باوجود آج تک میں  چار مینار کے  اندر نہ جا سکا نہ اس کے  اوپر۔ اس لیے  کہ میں  جانتا ہوں  کہ تاریخی عمارت کیسے  پیدا ہوتی ہے  اور شریف آدمی کیسے  پیدا ہوتا ہے ۔ عوض سعید سے  میری ملاقاتیں  یا تو شاذ کے  ہمراہ ہوئیں  یا میرے  اور عوض سعید کے  مشترکہ دوست حفیظ قیصر کے  ہمراہ۔

ایک زمانہ تھا جب مرحوم اورینٹ ہوٹل میں  شاذ اور عوض ایک دوسرے  کے  سائے  کی طرح ساتھ رہتے  تھے ۔ دونوں  کے  ہاتھوں  میں  دو دو تین کلو گرام وزنی رسالے  ہوتے  تھے ۔ ان موٹے  موٹے  رسالوں  کو ساتھ اٹھائے  پھرنے  کا تعلق بظاہر علم سے  کم اور جسمانی ورزش سے  زیادہ دکھائی دیتا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں  ساتھ ساتھ رہنے  کے  باوجود تنہا بھی دکھائی دیتے  تھے ۔ اورینٹ ہوٹل میں  اکثر یہ الگ تھلگ بیٹھے  رہتے  تھے ۔ ان میں  کیا تبادلہ خیال ہوتا تھا اس کا بھی پتہ نہیں  چلتا تھا۔ خیال ہو تو تبادلہ بھی ہو۔ جب شاذ سے  میری دوستی بڑھنے  لگی تو ظاہر ہے  عوض سعید سے  بھی ملاقاتیں بڑھنے  لگیں ۔ جب شاذ سے  میری بے  تکلفی بڑھی اور فقرہ بازی کی راہ نکل آئی تو دیکھا کہ عوض کے  پاس حس مزّاح بھی ہے۔ ہم دونوں  میں  جب نوک جھونک چلی تھی تو عوض سعید کا ہنسی کے  مارے  برا حال ہو جاتا تھا۔ کبھی کبھی عوض سعید مجھ سے  کہتا’’ یار تم بعض اوقات ٹو مچ کر دیتے  ہو‘‘۔ اور میں  کہتا۔ ’’عوض میں  تو تھری مچ کرنا چاہتا ہوں  اور تم ٹو مچ کو ہی ہضم نہیں  کر سکتے ‘‘۔ نہ جانے  کیوں  مجھے  عوض سعید کی ہنسی اچھی لگتی تھی۔ اس لیے  میں  جان بوجھ کر ایسی باتیں  کرتا تھا جن سے  عوض سعید ہنستا ہی چلا جائے ۔ عوض سعید کو ہنسنے  کا اتنا شوق نہیں  تھا جتنا کہ مجھے  اسے  ہنستے  ہوئے  دیکھنے  کا شوق تھا۔ عوض کی ہنسی میں  ایک ایسی روانی اور سلاست ہے  کہ اُس کی ہنسی ایک اسلوب کی طرح نظر آتی ہے ۔ میں  بھی شاذ سے  کہتا۔ ’’ یار عوض کی ہنسی میں  جو روانی اور سلاست ہے  اگر وہ اس کی کہانیوں  میں  بھی آ جائے  تو کیا کہنے ۔ ‘‘کبھی عوض سے  کہتا۔ ’’یار ! یہ کیا تم شاذ کے  سیٹیلائیٹ بنے   پھرتے  ہو، شاعری کو میں  مفت خوری سمجھتا ہوں ۔ چار پانچ غزلیں  کہہ لیں  اور مشاعروں  کو لوٹنا شروع کر دیا۔ اصل اہمیت تو نثر نگاری کی ہے ۔ شاذ تمہاری طرح نثر لکھ کے  دکھا دے  تو مانوں ‘‘۔ میری پوری کوشش یہ ہوتی تھی کہ عوض اور شاذ میں  کسی نہ کسی عنوان، کبھی نہ کبھی کوئی جھگڑا ضرور ہو۔ مگر ان دونوں  میں  دوستی کا ایک ایسا اٹوٹ معاہدہ تھا کہ نہ شاذ نے  کبھی نثر لکھی اور نہ ہی عوض نے  کبھی شعر کہا۔ مفادات کا ٹکراؤ نہ ہو تو دوستی کی جڑیں  اسی طرح مضبوط ہو جاتی ہیں ۔ اگرچہ آج ہمارے  اندر جلنے  والے  شعلوں  کی لویں  دھیمی ہو چکی ہیں، مگر پچیس تیس برس پہلے  کوئی بات ایسی نہ تھی، کوئی موضوع ایسا نہیں  تھا جس کی طرف ہم نہ لپکتے  ہوں  میں  اپنے  پرانے  دوستوں  کو اب بے  بس، مضمحل، نڈھال اور پژ مردہ پاتا ہوں  تو کوئی حیرت نہیں  ہوتی۔ وقت کے  چاک پر آدمی بالآخر اس طرح کا کھلونا بن جاتا ہے ۔

بارِ الم اٹھایا، رنگِ نشاط دیکھے

آئے  نہیں  ہیں  یوں  ہی انداز بے  حسی کے

۱۹۴۹ء؁ میں  عوض سعید کی کہانیوں  کا پہلا مجموعہ ’’ سائے  کا سفر ‘‘ چھپ کر آیا تو دوستوں  میں  اس پر طرح طرح کے  تبصرے  ہوئے ۔ کسی نے  کہا یہ شاذ کے  سائے  کا سفر ہے ۔ کسی نے  کہا یہ ہمسائے  کے  سائے  کا سفر ہے ۔ عوض نے  بڑے  پیار سے  اپنی پہلی کتاب مجھے  دی تھی۔ کچھ کتابیں  ایسی ہوتی ہیں جو ہاتھوں  ہاتھ لی جاتی ہیں  لیکن اب اردو میں  کتابیں  ہاتھوں  ہاتھ دی جاتی ہیں ۔ اس وقت تک عوض سعید افسانہ نگار کی حیثیت سے  سارے  برّ صغیر میں  جانا اور پہچانا جاتا تھا۔ مجھے  یاد ہے  کہ اس کتاب میں  تزئین کے  نام پر ایک افسانے  کی کتابت کچھ اس طرح کرائی جاتی تھی کہ آدمی کو کئی کئی پوز بدل کر اس افسانہ کو پڑھنا پڑتا تھا۔ اس افسانے  کو پڑھنے  میں  ذہنی ورزش کم اور جسمانی ورزش زیادہ کرنی پڑتی تھی۔ ایک بار میں  نے  عوض سے  کہا تھا۔ ’ اگر کوئی آدمی اس افسانہ کو صبح میں  روزانہ پانچ مرتبہ پڑھے  تو اس سے  اس کی صحت بھی خراب نہیں  ہو گی۔ صحت مند ادب کی اس سے  بہتر کوئی اور مثال نہیں  ہو سکتی۔ عوض نے  نہایت سنجیدگی کے  ساتھ میرے  تبصروں  کو داد کے  طور پر قبول کیا تھا اور وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ مستقبل میں  بھی اسی طرح کے  صحت مند افسانے  لکھتا رہے  گا۔

عوض کم گو، کم آمیز شخص ہے  لیکن کسی سے  دوستی کرتا ہے  تو اسے  نبھانا بھی جانتا ہے ۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے  وہ مجھے  بہت پسند ہے ۔ اپنے  ابتدائی افسانوں  میں اُس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ قاری کو چونکایا جائے ۔ چار پانچ سال پہلے  اس کا ایک افسانہ پڑھ کر میں  سچ مچ چونک گیا تھا۔ کیونکہ اس میں  اُس نے  قاری کو بالکل نہیں  چونکایا تھا۔ اس چونکنے  پر مجھے  ایک بات یاد آ گئی۔ کوئی بیس برس پہلے  حفیظ قیصر نے  ایک دن مجھے  فون کر کے  کہا۔ ’’ فوراً چلے  آؤ، مجھے  عوض سعید کی ایک کہانی پڑھنی ہے ۔ ذرا میری مدد کرو۔ میں  نے  کہا۔ ’’ جو چیز تمھاری سمجھ میں  نہیں  آتی اسے  کیوں  پڑھتے  ہو۔ ویسے  عوض تمھارے  محلے  میں  ہی رہتے  ہیں، انہی سے  کہانی بھی سمجھ لو۔

حفیظ قیصر نے  کہا ’’ یار عوض کی کہانی خود عوض کی سمجھ میں  کہاں  آتی ہے ؟ میں  تو ایک اور سلسلے  میں  تمھاری مدد چاہتا ہوں ۔ ‘‘ میں  نے  پوچھا ’’کیسی مدد؟‘‘

بولا۔ ’’ میں  کہانی پڑھتا رہوں  گا۔ تم مجھے  مضبوطی سے  پکڑے  رہو تاکہ میں  کہیں  چونک نہ جاؤں ۔ یار یہ عوض چونکاتا بہت ہے ۔ اکیلا اور نہتّا آدمی تو اس کی کہانی پڑھ ہی نہیں  سکتا۔ ‘‘ بعض لوگوں  کا خیال ہے  کہ مغنی تبسم کے  زیر اثر عوض نے  قارئین کو چونکانے  کا سلسلہ ترک کر دیا ہے ۔ چاہے  کچھ بھی ہو۔ عوض اب کہانیوں  کو کہانی کی طرح لکھنے  لگا ہے ۔

جب سے  میں  دہلی گیا ہوں، عوض سے  سال میں  دو ایک مرتبہ ہی ملاقات ہوتی ہے ۔ وہ اکثر شکایت کرتا ہے  کہ ’’ یار تم حیدرآباد آتے  ہو اور دوستوں  سے  ملے  بغیر چلے  جاتے  ہو۔ ‘‘

میں  کہتا ہوں ۔ ’’ عوض : ادب سے  قریب رہنے  کے  لیے  میں  اب ادیبوں  سے  دور رہنے  کو ضروری سمجھنے  لگا ہوں ۔ ‘‘ پچھلے  دو تین برس سے  عوض کا تقاضا ہے  کہ ’’ میں  صرف اس کے  لیے  تین چار گھنٹوں  کا وقت نکالوں  تاکہ وہ مجھ سے  بات چیت کر کے  میرا خاکہ لکھ سکے ۔

میں  کہتا ہوں ’’ یار! خاکہ ایسی چیز نہیں  ہے  کہ تم جس کا خاکہ لکھ رہے  ہو اس سے  بات چیت بھی کرو۔ خاکہ نگاری سے  میرا بھی جائز یا ناجائز سا تعلق ہے ۔ جس کا خاکہ لکھتا ہوں  اس سے  خاکہ لکھنے  سے  پہلے  بات چیت نہیں  کرتا۔ یہ اور بات ہے  کہ خاکہ لکھنے  کے  بعد اس سے  بات چیت خود بخود بند ہو جاتی ہے ‘‘۔

عوض کہتا ہے  ’’ نہیں  یار! خاکہ AUTHENTIC  ہونا چاہیے ۔ ‘‘

میرا جواب ہوتا ہے ۔ ’’ اور اگر تم جس کا خاکہ لکھ رہے  ہو وہ آدمی ہی AUTHENTICنہ ہو تو۔ ‘‘

عوض جھنجھلا کر کہتا ہے ۔ ’’تم فضول بحث کرنے  لگ جاتے  ہو۔ تم میں  اب تک سنجیدگی اور بردباری نہیں  آ سکی‘‘۔

عوض سعید کے  خاکے  میں  نے  نہایت ذوق و شوق کے  ساتھ پڑھے ۔ اس کتاب میں  شامل اکثر خاکے  میں  نے  بہت پہلے  پڑھے  تھے  بلکہ میں  نے  ان خاکوں  کو اُس وقت پڑھا تھا جب عوض نے  انھیں  لکھا بھی نہیں  تھا کیونکہ عوض نے  جن شخصیتوں  کے  خاکے  لکھے  اُن سے  میرے  بھی مراسم رہے  ہیں  بلکہ پانچ تو ایسی شخصیتیں  بھی ہیں  جن کے  خاکے  میں  نے  بھی لکھے  ہیں ۔ اب عوض کے  لکھے  ہوئے  خاکوں  کا اپنے  لکھے  ہوئے  خاکوں  سے  تقابل کرتا ہوں  تو احساس ہوتا ہے  کہ عوض سچ مچ AUTHENTIC خاکے  لکھتا ہے ۔ اس کے  تین خاکے  جو وحید اختر، عالم خوند میری اور اوم پرکاش نرمل سے  متعلق ہیں  وہ بے  حد اچھے  اور AUTHENTIC ہیں ۔ عوض نے  جس راست بازی کے  ساتھ یہ خاکے  لکھے  ہیں  اُس پر رشک آتا ہے ۔ عوض کے  خاکے  پڑھ کر مجھے  یہ اندازہ بھی ہوا کہ ایک ہی شخص کے  بارے  میں  دو خاکہ نگاروں  کا رویّہ کتنا مختلف ہوتا ہے ۔ عوض سعید نے  شہر یار کے  خاکے  میں  لکھا ہے  کہ ’’ شہر یار یاروں  کا یار ہے  اور دشمنوں  کیلیے  اُپی ہوئی تلوار بھی۔ وہ آپ کو تباہی کے  آخری دہانے  پر پہنچاکر خدا حافظ بھی کہہ سکتا ہے  اور آپ کو سمندر میں  ڈوبتا ہوا دیکھ کر چھلانگ بھی لگا سکتا ہے ۔ شہر یار کے  بارے  میں  عوض سعید کی یہ رائے  میرے  لیے  سچ مچ ایک انکشاف سے  کم نہیں ۔ میں  نے  بھی شہر یار کا ایک خاکہ لکھا ہے  مگر شہر یار کی شخصیت کے  اس گوشے  کی طرف میری نظر نہیں  گئی۔ شہر یار میرا بھی قریبی دوست ہے ۔ اگر چہ وہ علی گڑھ میں  رہتا ہے، لیکن ہم دونوں  ہر مہینے  ملنے  کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتے  ہیں ۔ یا تومیں  علی گڑھ جاتا ہوں  یا شہر یار دہلی آ جاتا ہے ۔ دس برس سے  یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اتنی رفاقت کے  باوجود مجھے  شہر یار کی شخصیت میں  پوشیدہ اُپی ہوئی تلوار نظر نہ آ سکی۔ وہ تو بے  حد مرنجان مرنج، بے  ضر ر اور بے  نیاز سا آدمی ہے ۔ چار پانچ  دن پہلے  شہر یار واشنگٹن سے  دہلی واپس پہنچا تو میں  نے  کہا۔ ’’ یار شہر یار تمہاری وہ اُپی ہوئی تلوار کہاں  ہے ؟۔

شہر یار نے  کہا’’ بھئی کیا بتاؤں ۔ میں  نے  جس ایرلائنس میں  سفر کیا تھا اُس نے  بڑی گڑبڑ کر دی۔ میرا سامان کسی اور جہاز میں  سوار کروا دیا اور مجھے  کسی اور جہاز میں  بٹھا دیا۔ میرا سامان تو میرے  ساتھ آیا ہی نہیں ۔

میں  نے  کہا۔ تو کیا تم نے  واشنگٹن میں  کوئی تلوار بھی خریدی ہے ۔ اگر ایسا ہے  تو کسٹم والوں  کے  ہاتھوں  تمھاری خیریت نہیں  ہو گی۔ شہر یار نے  کہا۔ ’’میں  تو اپنے  سارے  سامان کو رو رہا ہوں  اور تم نے  تلوار ولوار کی رٹ لگا رکھی ہے،میرا تلوار سے  کیا تعلق،میں  تو طاؤس ور باب اوّل شمشیر د سناں  آخر کا قائل ہوں، یہ تمھیں  کیا ہو گیا ہے ۔ ‘‘

میں  نے  عوض سعید کا خاکہ اسے  پڑھاتے  ہوئے  کہا۔ ’’ میں  تم سے  سخت ناراض ہوں ۔ اتنی دوستی اور رفاقت کے  باوجود تم نے  اپنی تلوار عوض سعید کو تو دکھا دی اور مجھے  نہیں  دکھائی۔ ‘‘

شہر یار نے  ہنس کر کہا ’’جس کو جو چیز دکھانی ہوتی ہے  وہی اس کو دکھاتا ہوں۔ ‘‘ میں  نے  شہر یار سے  کہہ رکھا ہے  کہ چاہے  کچھ ہو، میں  تمہاری تلوار دیکھ کے  رہوں گا اور شہر یار نے  بھی وعدہ کیا ہے  کہ واشنگٹن سے  جب اس کا سامان آ جائے  گا تو تلوار دکھا  دے  گا۔

عوض سعید سے  مجھے  صرف ایک شکایت یہ ہے  کہ اس نے  شاذ تمکنت کا کوئی خاکہ نہیں  لکھا۔ میں  نے  ایک صاحب سے  اس کمی کا ذکر کیا وہ بولے  بھئی! عوض نے  شاذ کا خاکہ اس لیے  نہیں  لکھا کہ وہ شاذ کو بہت اچھی طرح جانتا ہے ۔ ‘‘

بہرحال میں  عوض سعید کو ان خاکوں  کی اشاعت پر مبارکباد دیتا ہوں  کہ اس طرح حیدرآباد کی بعض ایسی شخصیتیں  اس کتاب میں  محفوظ ہو گئی ہیں  جن سے  حیدرآباد جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔

(عوض سعید کے  خاکوں  کے  مجموعے   ’’خاکے ‘‘ کی رسمِ اجراء کے  موقعے  پر پڑھا گیا)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول