صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
قرآن اور عورت
حافظ ریاض حسین نجفی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
عظمتِ عورت بہ حیثیت زوجہ
رسول اعظم کا فرمان ہے کہ لولا علی لما کان لفاطمۃ کفو۔ علی سید الاولیا ء ، علی۔نفس رسول علی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے بھا ئی نورِ علی رسول اعظم کے نور میں شریک۔ علی مدینۃ العلم ، علی منبرسلو نی کے داعی ، فاطمہ کے کفو صرف علی ہیں۔ اس سے واضح ہو ا کہ فاطمہ زہر ا کس قدر عظمت کی مالک ہیں۔ اے انسان عورت زوجہ کی شکل میں اب تیری مشیر ،تیر ے گھر کی ملکہ ،تیری غم گسار ،تیری عزت کا نشان ،تیرے بچوں کی ماں،تیرے بچوں کی مربی ،اس کی عزت کر۔ اس کی عظمت کا قائل ہو جا۔ اسی میں تیری عزت و عظمت ہے۔ عورت (والدہ) والدین (ماں باپ) کی اہمیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے اس میں بھی باپ کیساتھ عورت (ما ں) کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ یہ بتا یا جاسکے ماں عورت ہونے کی وجہ سے درجہ میں کم نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں ماں کی عظمت بہتر انداز میں ذکر کی گئی ہے ارشاد ہے کہ الجنۃ تحت اقدام الامہات۔ جنت ما ں کے قدمو ں کے نیچے ہے۔ نیز ارشاد رب العزت ہے: وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اللہ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا "اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور اپنے والدین پر احسان کرو۔" (سورہ بقرہ : ۸۳) پھر ارشاد رب العزت ہے :
کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرَاًن الْوَصِیَّۃ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۔
"تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور رشتہ دارو ں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے۔" سورہ بقرہ: ۱۸۰ نیز ارشاد رب العزت ہے :
وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا "
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک پر مجبور کریں جس کا تجھے کو ئی علم نہ ہو تو ان دونوں کا کہنا نہ ماننا۔" (سورہ عنکبوت : ۸) اللہ تبارک و تعالیٰ نے بعض آیات میں اپنی عبادت اور شرک نہ کرنے کے فوراً بعد والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے۔ جیساکہ ارشاد رب العزت ہے: وَاعْبُدُوا اللہ وَلَاتُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔ "اورتم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی کو اسک ا شریک قرار نہ دو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔" (سورہ نساء : ۳۶) اللہ نے دس حقوق انسانی کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے اپنے ساتھ شرک نہ کرنے اور والدین سے اچھائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔
"کہہ دیجئے آؤ میں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں وہ یہ ہیں کہ تم لوگ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو۔" (انعام: ۱۵۱) مزید ارشاد رب العزت ہے:
وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَا أُفٍّ وَّلَاتَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیرًا۔
"اور تمہارے کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھے ہو جائیں تو خبر دار ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں بلکہ ان سے عزت و تکریم سے بات کرنا اور ان کیلئے خاکساری کے ساتھ کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔" (بنی اسرائیل :۲۳ تا ۲۴) ماں باپ کی عظمت کا کیا کہنا اللہ کا فیصلہ ہے کہ میری عبادت کرو اور پھر والدین کے ساتھ احسان کرو۔ پھر اف کہنے تک کی اجازت نہیں ہے بہرحال اس حکم میں ماں بھی شریک ہے جیساکہ انبیاء اور اولیاء بھی اپنی دعاؤں میں باپ کے ساتھ ماں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ جیساکہ حضرت نوح کے متعلق ارشاد رب العزت ہے:
رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔
"پروردگار! مجھے اور میرے والدین ، اور جو ایمان کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہو ، اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما۔" (نوح :۲۸) اس دعا میں ماں اور ہر مومن عورت کا تذکرہ موجود ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد رب العزت ہے: رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔ "پروردگار! مجھے ، میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔"(ابراہیم :۴۱) حضرت سلیمان بھی اپنے معصوم اور نبی باپ کے ساتھ اپنی والدہ کو بھی دعا میں شریک کر رہے ہیں جیساکہ ارشاد رب العزت ہے: رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ۔ "پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین (ماں باپ) کو نوازا ہے۔"(احقاف :۱۵) اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ - کو ان پر ان کی والدہ پر کیے گئے احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے:
إِذْ قَالَ اللہ یَاعِیَسٰی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ۔
"جب حضرت عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا:یاد کیجئے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی۔" (مائدہ :۱۱۰) حضرت عیسیٰ اللہ سے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کی خواہش کر رہے ہیں۔
وَبَرًّا بِوَالِدَاٰتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔
(اللہ نے) مجھے اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا اور مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔" (مریم :۳۲) الٰہی کتاب قرآن مجید کی رو سے ،عورت اور مرد میں خلقت،اعمال، کردار،اخلاق ، نیکی ، بدی، جزا و سزا، انعام و اکرام ، حیات طیبہ ، وغیرہ میں سے کسی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اللہ نے معیار ِتفاضل ، معیار ِ بہتری اور معیارِ بلندی صرف تقویٰ اور خوف خدا کو قرار دیا ہے۔ اے انسان! عورت تیری طرح کی اور تیرے ہی جیسی انسان ہے۔وہ بیٹی بن کر تجھ پر رحمت برساتی ہے۔بیوی بن کر تیرے دین اور ایمان کی تکمیل کرتی ہے اور ماں بن کر تجھے جنت کا تحفہ پیش کرتی ہے۔ جب بیٹی بنے تو خوش ہو جا کہ تجھ پر رحمت خدا کا نزول ہوا ہے۔جب وہ زوجہ نہیں بنی تھی تو،تو اکیلا تھا لیکن اب تجھے دوست، شریک کار ،ساتھی،اور مشیر مل گیا ہے۔جب ماں بنی تو ،تو اس کے پاؤں پکڑ کر خدمت کر کیونکہ تجھے جنت کا وسیلہ مل گیا ہے۔ خدایا تو ہم سب کو حقیقی مسلم اور مؤمن بننے کی توفیق عطا فرما۔ احکام و حقوق میں مرد و عورت کا اشتراک ارشاد رب العزت : وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ " اور عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔" (سورہ بقرہ آیت ۲۲۸) مدینہ سے بعض مسلمان مکہ آئے۔ مخفیانہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کی ان میں دو عورتیں تھیں۔ نسیبہ بنت کعب۔ اسماء بنت عمرو ابن عدی۔ فتح مکہ کے وقت عورتوں سے باقاعدہ علیٰحدہ بیعت لی گئی۔ ارشاد رب العزت ہے:
یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَّایُشْرِکْنَ بِاللہ شَیْئًا وَّلَایَسْرِقْنَ وَلَایَزْنِینَ وَلاَیَقْتُلْنَ أَوْلاَدَہُنَّ وَلاَیَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہ بَیْنَ أَیْدِیْہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلاَیَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہ إِنَّ اللہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔
"اے نبی جب مومنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکاب بنائیں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان (غیر قانونی اولاد) گھڑ کر (شوہر کے ذمے ڈالنے) لائیں گی اور نیک کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان سے بیعت لے لیں۔ اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ اللہ یقیناً بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورہ ممتحنہ : ۱۲) اسلام کی نظر میں عورت کی پہچان۔ اس عنوان سے ہے کہ اجتماعیت کا تکامل اسی وجہ سے ہے خواہ عورت بیٹی ہو ، زوجہ ہو یا ماں۔ اسلامی قانون میں عورتیں ، کسب معاش ، تجارت ، عبادت و وظائف میں مردوں کے مساوی ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:
وََلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللہ مِنْ فَضْلِہ إِنَّ اللہ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۔
"اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کیا کرو۔ مردوں کو اپنی کمائی کا صلہ اور عورتوں کو اپنی کمائی کا صلہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگتے رہو یقیناً اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔" (النساء :۳۲) آسمان و زمین کی خلقت ،لیل و نہار کی آمد ، رات و دن عبادت خدا، خلقت عام میں تفکر، دعاؤں کا طلب کرنا، معارف اسلامی کی معرفت اور عملی عقیدہ ان سب امور میں۔ مرد و عورت شریک۔ ثواب و جزاء کے حق دار، کسب معارف، حمل امانت الٰہی میں سب برابر ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے :
یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ بُشْرَاکُمُ الْیَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیہَا ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔
"قیامت کے دن آپ مومنین و مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا (ان سے کہا جائے گا) آج انہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، جن میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہو گا، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔ " (سورہ حدید:۱۲) نور کی موجودگی میں عورت مرد مساوی مدارج۔ عبادات اسلام و ایمان میں مساوی۔ ارشاد رب العزت ہے:
إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللہ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللہ لَہُمْ مَّغْفِرَۃ وَّأَجْرًا عَظِیْمًا۔
"یقیناً مسلم مرد اور مسلمہ عورتیں۔ مومن مرد اور مومنہ عورتیں۔ اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں۔ راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں۔ فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں۔ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں۔ روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں۔ اپنی عفت کے محافظ مرد اور اپنی عفت کی محافظ عورتیں خدا کو یہ کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں۔وہ ہیں جن کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ " (احزاب ۳۵) حفظ قانون ، نظارت امن ، باہمی اجتماع کا وجود عورت و مرد دونوں کا وظیفہ قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنَ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاۃ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکَاۃ وَیُطِیْعُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ أُوَلَئِکَ سَیَرْحَمُہُمْ اللہ إِنَّ اللہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔
" اور مومن مرد و مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے۔" (سورہ توبہ: ۷۱) ازواج نبی اعظم کو حکم ہے معارف قرآن کے حصول اور آپس میں مذاکرہ کرنے کا :
وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللہ وَالْحِکْمَۃ إِنَّ اللہ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۔
"اور اللہ کی ان آیات و حکمت کو یاد رکھو۔ جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً بڑا باریک بین اور خوب با خبر ہے۔" (احزاب ۳۴) گویا ہر گھر میں موجود عورت کو حکم ہے معارف قرآنی کے حصول اس کی دوسری عورتوں کو ترغیب اور عمل پیرا ہونے کا۔ یہی اسلامی فریضہ ہے جو مرد و عورت دونوں نے بروئے کار لانا ہے۔ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا جس میں عورت مرد شریک ہیں۔ ارشا د رب العزت ہے :
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلاَمُؤْمِنَۃ إِذَا قَضَی اللہ وَرَسُولُہ أَمْرًا أَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللہ وَرَسُولَہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا
"اور کسی مومن مرد و مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اسکا رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملہ میں اختیار حاصل رہے۔اور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔" (احزاب :۳۶) عزیز من !ان آیات سے معلوم ہوا کہ مرد و عورت کا امتیاز اعمال و کردار کی بلندی و پستی کی بدولت ہے جو اللہ سے زیادہ مربوط ہو گا وہی عالی درجہ پر فائز ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭