صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اتنا آسمان
رفیع رضا
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
جو دن کے ساتھ نکل کر غروب ہوتا ہوں
تو اپنے خُون میں ڈھل کر غروب ہوتا ہوں
غروب ہونے کی کُچھ اور صُورتیں بھی ہیں
مُجھے یہ کیا ہے کہ جل کر غروب ہوتا ہوں
پُکارتا ہے کسی اورکو اُفق لیکن
میں اپنا نام بدل کر غروب ہوتا ہوں
نہ جانے کون مُجھے اپنے پیچھے چھوڑ گیا
میں سارے دشت میں چل کر غروب ہوتا ہوں
پھر آبِ سُرخ کٹاؤ میں ڈھُونڈتا ہے مُجھے
میں آنکھیں زور سے مَل کر غروب ہوتا ہوں
کسے خبر کہ کسی دن کوئی طلوع نہ ہو
کئی دنوں سے سنبھل کر غروب ہوتا ہوں
***
اوروں نے جب زمیں کو وراثت میں لے لیا
میں نے بھی آسمان کو غُربت میں لے لیا
سویا ہوا تھا شہر مگر ، یُونہی خوف نے
میں جاگتا تھا، مُجھ کو حراست میں لے لیا
سوچا کہ کُچھ نہیں ہے تو دن ہی نکال لُوں
یہ کام رات میں نے فراغت میں لے لیا
مرکز میں اُس کے تھی کوئی منزل کِھلی ہوئی
جس دائرے نے مُجھ کو مسافت میں لے لیا
شُعلے کا رقص دیکھنے آئے ہوئے ہجوم!
مُجھ سے یہ کام سب نے محبت میں لے لیا
صف خالی ہو گئی سبھی وحشی نکل گئے
میں نے خُدا کا نام جو وحشت میں لے لیا
تُم مل گئے تو دیکھو تُمھاری خُوشی کو پھر
چاروں طرف سے دُکھ نے حفاظت میں لے لیا
پہلے کوئی خلا میرے دل کے قریب تھا
پھر اِس کو میری آنکھ نے وُسعت میں لے لیا
جیسے اُلٹ گئی کہیں ترتیب ِ خدّوخال
ذرّے نے کائنات کو حیرت میں لے لیا
***