صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


آسیب سے پرچھائیں تک

یاسمین حبیب

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

غزلیں

سانس لیتا تو ہے اک پتھر میں تُو

ڈھل بھی جا اب جسم کے پیکر میں تُو


شاخ پر جیسے نظر آتا نہ تھا

سج اٹھا ہے کوٹ کے کالر پہ تُو


سوچتے رہتے ہیں تنہا رات بھر

جاگتا شاید نہ ہو بِستر میں تُو


نیند کیا آئے بھلا اِس فکر میں

جانے باہر ہے یا اپنے گھر میں تُو


ہِجر میں بھی وصل کا ہے امتزاج

گویا منظر ہے پسِ منظر میں تُو

٭٭٭


نام سے جس کے بدن میں جھرجھری آتی رہی

وقت یہ آیا کہ اس کی یاد بھی جاتی رہی


یوں خزاں کی چیونٹیاں چمٹیں زمیں کی کوکھ سے

فصلِ  گل بے چین تھی راتوں کو چلاتی رہی


ایک نقطے پر ملے احساس کے سب زاویے

دائرہ میں درد کی تصویر لہراتی رہی


اس نظر کی دھوپ کا لکھنا پڑا ہے مرثیہ

عمر بھر جو منجمد سوچوں کو پگھلاتی رہی


منزلِ  شہرِ  تمنا دسترس میں تھی مگر

آرزو کو راستے میں نیند آ جاتی رہی


اس طرح جاڑا کوئی لپٹا رہا کہ عمر بھر

گرم پانی سے بھری بوتل کو سہلاتی رہی

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول