صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اثاثۂ شب

رفیق  سندیلوی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

غزلیں


زمیں بارہ ستونوں پر کھڑی تھی اور میں بھی

گلوئے شب میں تاروں کی لڑی تھی اور میں بھی


گڑا تھا اس کا چہرہ اور خنجر قلبِ مہ میں

وجودِ شمس میں برچھی گڑی تھی اور میں بھی


سماتے کس طرح ہم دونوں اِس چودہ طبق میں

ہوا اپنی جسامت سے بڑی تھی اور میں بھی


گرا تھا ایک ہی ساعت میں وہ بھی مشتری سے

افق سے کاسنی مٹی جھڑی تھی اور میں بھی


جسے خالی سمجھ کر وہ زمیں پر لوٹ آیا

اُسی گنبد میں اِک میت پڑی تھی اور میں بھی

٭٭٭



اُسے شوقِ غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا

مرے نجمِ آب! مجھے بتا وہ کہاں گیا


جو لکیر پانی پہ نقش تھی، وہ کہاں گئی

جو بنا تھا خاک پہ زائچہ وہ کہاں گیا


کہاں ٹوٹے میری طنابِ جسم کے حوصلے

جو لگا تھا خیمہ وجود کا وہ کہاں گیا


جو زمین پاؤں تلے بچھی تھی، کدھر گئی

وہ جو آسمان سروں پہ تھا وہ کہاں گیا


گئے کس جہت کو تکونِ خواب کے زاویے

جو رُکا تھا آنکھ میں دائرہ وہ کہاں گیا


ابھی عکس اُس کا ابھر رہا تھا کہ دفعتہً

مرے آئینے سے بچھڑ گیا وہ کہاں گیا


کہاں گم ہوئیں وہ زبان و کام کی لذتیں

جو پھلوں میں ہوتا تھا ذائقہ وہ کہاں گیا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول