صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
آسان عروض کے دَس سبق
محمد یعقوب آسیؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
پہلا سبق : مبادیات
ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو ادب اور خاص طور پر شعر کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو شعر کہنے پر مائل ہیں مگر عروض اور بحور کا یا تو پورا شعور نہیں رکھتے یا رکھتے تو ہیں مگر شعر موزوں کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں ایسی فروگزاشت کر جاتے ہیں جو کسی بھی خوش ذوق قاری پر گراں گز رتی ہے۔ ادھر عروض اور بحور کا صحیح صحیح ادراک اور تفہیم بہر حال ایک محنت طلب کام ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے ادب دوست احباب عروض اور بحور کے رسمی علم سے بہت زیادہ شناسائی نہ رکھنے کے باوجود شعر کو درست آہنگ میں پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شعر کو درست آہنگ میں پڑھ لینے کی صلاحیت کو عام زبان میں ’’شعری وجدان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
شعر اور نثر میں بنیادی فرق کیا ہے! نثر میں تو یہ ہے کہ اپنے موضوع پر ہمارے جملے اور ان میں شامل الفاظ ایک ایسی ترتیب میں آتے ہیں جس میں معانی اور مفاہیم کو اولیت دی جاتی ہے۔ نثر میں کسی خاص آہنگ یا سُر اور لے کی ضرورت نہیں ہوتی، اور نہ کوئی ایسی قید ہوتی ہے کہ ایک مضمون یا پیراگراف سے سب جملے ضخامت میں برابر ہوں ، نہ اُن کو ادا کرنے میں حرکات و سکنات کی کوئی خاص ترتیب ملحوظ رکھنا ہوتی ہے۔ معانی اور مطالب کا بہاؤ اور نثر نگار کے منتخب کردہ الفاظ جملوں کو مکمل کرتے ہیں۔
ابھی ہم نے آہنگ کی بات کی ہے۔ آپ نے بہت سارے گلو کاروں کو غزل گاتے سنا ہو گا (غزل کی بات نادانستہ طور پر چل پڑی، اس کی توضیح آگے آئے گی)۔ بہت سے شعراء کو کسی مشاعرے میں یا ریڈیو، ٹی وی پر غزل پڑھتے سنا ہو گا۔ آپ نے یہ بھی نوٹ کیا ہو گا کہ ایک شاعر جب غزل پڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کے ہر مصرعے میں ادا ہونے والے حروف کا صوتی اتار چڑھاؤ ایک سا ہوتا ہے۔ یہی چیز آہنگ ہے۔ شعر کا ایک اچھا قاری بھی شعر کو ایسے ہی اتار چڑھاؤ کے ساتھ پڑھتا ہے۔ اس پر مزید غور کیجئے تو کھلتا ہے کہ ایک فن پارے کے تمام مصرعوں میں حرکت والے حروف اور ساکن حروف کی ترتیب ایک جیسی ہوتی ہے۔ کسی ایک شعر میں وارد ہونے والی اسی ترتیب کو فن کی زبان میں بحر کہتے ہیں۔ اب بات کرنا کسی قدر آسان ہو گیا، آپ یوں کہہ لیجئے کہ ایک غزل کے تمام مصرعے ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں اور یہ ضروری ہے۔
عام مشاہدے کی بات ہے کہ ایک شخص شعر کہنا شروع کرتا ہے تو غزل سے شروع کرتا ہے۔ جوں جوں وہ پختہ ہوتا چلا جاتا ہے غزل کے ساتھ دوسری شعری اصناف (مثنوی، مسدس، مخمس، قطعہ؛ وغیرہ) میں بھی طبع آزمائی کرتا ہے، اور غزل ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ تا وقتیکہ کوئی شاعر کسی خاص صنفِ شعر کے حوالے سے معروف و مشہور ہو جاتا ہے۔ رباعی اور مثنوی فی زمانہ بہت کم لکھی جا رہی ہیں۔ بہت سے شعراء تو کہتے ہی صرف غزل ہیں۔ اردو غزل کا مستقبل بھی دیگر اصناف کی طرح ایک عرصے تک موضوعِ بحث رہا ہے، کبھی غزل کے حق میں آواز اٹھی تو کبھی اس کے خلاف غلغلہ بلند ہوا۔ تاہم اب یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ غزل ہر زمانے کے حالات میں زندہ رہنے اور پنپنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وقت ہمارے ادبی ذخیرے میں غزلیات سب سے زیادہ ہیں۔
اوزان اور عروض کی تفہیم کے لئے غزل کے اشعار بہترین مواد فراہم کرتے ہیں۔ غزل کی عمومی ہیئت کو سمجھنے کی غرض سے نمونے کے طور پر یہ ایک غزل نقل کی جا رہی ہے:۔
مجھے محسوس کرنے والا اک دِل چاہئے تھا
ستم پھر اُس کے شایان و مقابل چاہئے تھا
تجھے بھی چاہئے تھی پردہ داری چاہتوں کی
مجھے بھی خود پہ قابو، جانِ محمِل، چاہئے تھا
غمِ ہجرت اٹھانا ہے کوئی آسان ایسا
یہاں پہلے قدم پر ہی بڑا دل چاہئے تھا
ذرا سی رُت بدلنے پر یہ اتنی آہ و زاری؟
ذرا اک حوصلہ جمِّ عنادِل چاہئے تھا
سرِ دیوار لکھے ہیں زمانے آنے والے
٭٭٭