صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ارسطو کے تصور شعر و فن کی نئی تشریح
ڈاکٹر اقبال آفاقی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
]جیمسن کیمرون کی فلم اواتار نے جمالیات کے مقاصد و معنی کو ایک نئے بعد سے روشناس کرایا ہے۔ انسان کی متخیلہ کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ اواتار کار پوریٹ سرمایہ دارانہ دور میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر لڑی جانے والی جنگ کی کہانی ہے۔ اسے پس ساختیات گرائمر میں تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کا موضوع دکھوں اور مصائب سے نجات کا ایک نیا راستہ ہے۔ جو لبریشن اور انقلاب کا راستہ۔ اس فلم کی فینٹسی فتوحات اور غلبے کی فینٹسی نہیں جو ہزار ہا سال سے انسان کے لا شعور پر کسی بھوت کی طرح قابض رہی ہے۔ اس بھوت نے ہیرو کے تصور کو خونخواری، دہشت گردی اور موت کے کھیل سے منسلک رکھا ہے۔ اس فلم کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انسانی المیے کو ایک نئی تعبیر دی ہے جس نے ہیرو کو نہ صرف سماجی ارادے سے بر تر اور روایت کے تحکم سے بالا تر کر دیا ہے بلکہ کائنات سے فرد کی ہم آہنگی کو طرح نو فراہم کی ہے۔ یہاں اجنبی لوگ(Other ) جوکسی اور دنیا کی مخلوق ہیں اتنی ہی ہمدردی اور محبت کے حق دار ہیں جتنا کہ ہیرو اور اس کی ساتھی عورت۔ اس اجنبی دنیا کا نام پینڈورا ہے اور یہاں کے لوگوں کو نعوی کہا گیا ہے ان ’دوسروں ‘کے تحفظ کے لئے ہیرو اور اسے کے ساتھی اپنوں سے بغاوت کرتے ہیں اور نعوی ثقافت و معاشرت کو بچانے کی خاطر جان پر کھیل جاتے ہیں۔ ان کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی اور خیر اعلیٰ نہیں۔ اور ہیرو کے لئے نعوی عورت سے بڑھ کر اور کوئی عورت خوبصورت نہیں۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو اس فلم میں حسن و خیر کا ما بعد جدید تصور سامنے آیا ہے۔ ہمدردی، غم گساری، کیتھارسس اور ارتفاع کے تصورات نئے معنوں میں ڈھل گئے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ما بعد جدید عہد میں جمالیات کا ایک نیا ( ما بعد جدید ) تصور جنم لے چکا ہے۔ اس کے بہتر افہام کی ضرورت ہے۔ چنانچہ لازمی ہے کہ جمالیات کے معیارات کو پھر سے سمجھا جائے اور نئے پیرا میٹرز کی نشاندہی کی جائے جو آنے والے دور کی جمالیات میں کار آمد ثابت ہو سکیں۔ زیر نظر مضمون میں اسی خواہش کے تحت ارسطو کے نظریہ شعر و فن کی از سر نو تشریع کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں یہ بھی نشان خاطر رہے کہ جمالیات ارسطو سے شروع تو ہوتی ہے اس پر ختم نہیں ہو جاتی۔ ]
ارسطو نے جہاں فلسفہ اور سائنس کے میدان میں سنگ میل کار نامے سر انجام دیئے وہاں اس نے نظریہ شعروفن کو مستقل بنیاد یں فراہم کیں ، شعریات اور قدر شناسی کے معیارات مقرر کئے۔ فن کو وہ فکری اور نفسیاتی جواز مہیا کیا جو افلا طون کے خیال میں محال تھا۔ اگر چہ تنقیدی انداز نظر کی پر چھائیاں ہمیں ہومر کے یہاں بھی ملتی ہیں ، افلاطون کے مکالمات میں بھی ایک تنقید ی نظر یہ ابھرتا نظر آتا ہے، لیکن بہ ایں ہمہ تنقید کا کوئی مثبت تصور اور فن کی تحسین کا کوئی ٹھوس معیار سامنے نہیں آیا۔ گو افلاطون کے یہاں فن شاعری کے بارے میں ایک نقطۂ نظر موجود ہے، تاہم اس کا ردّ عمل صریحاً منفی ہے۔ پہلی وجہ تو اس کا مثالی اور آدرشی نظریہ ہے جس کے تغلب نے اس کے نظریۂ شعر کو پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ اس کے شہر مثال میں شاعر آوارہ خیال کا بھلا کیا کام ؟ چنانچہ افلاطون نے جب شہر مثال کے نین نقش واضح کئے تو حکم صادر کر دیا کہ چونکہ شاعری عقل و فہم کے خلاف اور فتنہ پرور ہے۔ اس لئے اسے شہر بدر کر دیا جائے۔ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
لیکن ارسطو سراپاعملیت پسند تھا۔ شہر مثال سے اسے کوئی غرض نہیں تھی۔ اس کے یہاں شہر مثال سے زیادہ شاعری اہم تھی۔ اس نے نہ صرفا فلاطون کے منفی تصور شعر پر اعتراضات کا مدلل جواب دیا۔ اس نے روح کی تسکین اور نفس کی تہذیب کے بارے میں سوچا۔ تخیل اور وجدان کے ذریعے شعور کی کشادگی کی بات کی۔ اور اسی غائی نقطۂ نظر پر ’بوطیقا ‘ کی بنیاد رکھی۔ شعر و شاعری کی تنقید کو ایک نیا ولولہ اور ایک نئی جہت فراہم کی جس نے ہر دور کے ماہرین انتقادیات و جمالیات کو افکار تازہ کی نوید دی۔
یہ درست ہے کہ ارسطونے استحضاریت(Representation) کا تصور افلاطون کے فلسفۂ آرٹ کے تصور تقلید (Mimesis/Immitation)سے اخذ کیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس کا تصور فن افلاطون سے یکسرمختلف ہے۔ اس نے تقلید در تقلید کی منطق کو مسترد کر دیا ہے۔ ۱ اس طرح اس کے ہان تقلید کا تصور ایک متمول تخلیقی عمل کے طور پرسامنے آیا ہے۔ ار سطو کا خا صا یہ ہے کہ اس نے جہاں قبل تجربی تعقلات کے استعمال سے گریز کیا، وہاں اس نے نظریہ شعر کے تعین میں ایک ایسی سمت دریافت کی جو زندگی کے مادی حقائق سے مملو ہونے کے باعث افلاطون کی دسترس سے باہر تھی۔ ارسطو نے نقل در نقل کے بنجر تصور کو قبول نہیں کیا۔ نقل کی اصطلاح اس کے ہاں ایک زر خیز تصور کے طور پر سامنے آئی ہے جس میں جذبات کی پذیرائیِ ، توجہ کے ارتکاز اور قلب کی شفافیت کو اہمیت دی گئی ہے۔ ارسطوکے تصور استحضاریت میں اس واقعاتی دنیا میں بلتوں کا عمل دخل جذبات کی پذیرائی کے ساتھ موجود ہے۔ ارسطو کا تصور آرٹ محض اصولیات تک محدود نہیں کیا۔ اس نے تواسے موضوع کی داخلی قدر و قیمت اور معنوی آفاق تک وسیع کر دیا ہے۔
٭٭٭