صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


عربی زبان

مولانا محمد بشیر

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

مجھے اِس امر کا اِعتراف ہے کہ خصوٗصاً ہماری دینی درسگاہوں میں عربی زبان و ادب کی نہایت وقیع اور معیاری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، نیز عربی گرامر کے دونوں شعبوں یعنی علم صرف اور علم نحو میں مستند اور مفصل کتابوں کی تدریس ہوتی ہے اور اِن کی تعلیم و تدریس کئی سال جاری رہتی ہے ، جو بڑی محنت اور جانفشانی سے کی جاتی ہے اور پھر ان تینوں علوم (عربی زبان، علم صرف اور علم نحو) کی تدریس کی ذمہ داری صرف کہنہ مشق اور محنتی اَساتذہ کو ہی دی جاتی ہے ۔  چنانچہ طلبہ و طالبات علم صرف کی گردانوں اور قواعد کو بڑی توجہ سے پڑھتے ہیں بلکہ حفظ کرتے اور فرفر سناتے ہیں اور نحو کے قواعد کو بھی نہایت محنت اور توجہ سے پڑھایا جاتا ہے ،  پھر بڑی جماعتوں میں عربی زبان کی بلاغت اور معانی کی مستند کتابوں کی تدریس بھی ہوتی ہے ۔ تو اُن علوم پر اِتنی توجہ اور اِہتمام کے باوجود ہمارے طلبہ و طالبات ان میں پسماندہ کیوں رہتے ہیں؟


اِسلامی درسگاہوں کی اِن مفید خدمات اور رَوشن پہلوؤں کے باوجود ہم اُن کے فضلاء کو دیکھتے ہیں کہ وہ عربی زبان و اَدب دونوں میں پسماندہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان علوم کی پچیس تیس کتابیں پڑھنے کے باوجود عربی زبان کے عملی اِستعمال یعنی اِس میں گفتگو اور تحریر کی قدرت نہیں رکھتے اور سخت ضرورت کے وقت معمولی عربی بول چال اور تحریر سے بے بس نظر آتے ہیں۔ نیز اہلِ زبان سے ملاقات کے وقت اُن کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور عصر حاضر کے عربی اَخبارات اور مجلات سے اِستفادہ نہیں کر سکتے ۔ وہ صرف قدیم کِتابوں کی عبارتوں کو سمجھتے ہیں، لیکن جدید عربی لٹریچر کا مطالعہ نہیں کر پاتے ۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اَپنے طویل تعلیمی عرصے میں اُن کی کتابوں کا اُردو ترجمہ یاد کرتے ہیں، اور اُن کے قواعد اور اُصولوں کو صرف نظری اور زبانی حد تک رَٹنے میں صرف کرتے ہیں اور عربی اَلفاظ اور تراکیب کے اُن روزمرہ اِستعمالات اور محاوروں سے ناواقف رہتے ہیں،  جو اہلِ زبان کے معاشرے میں لکھے بولے جاتے ہیں۔  دوٗسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ یہ فاضل حضرات صرف عربی زبان کے مفرد اَسماء اور اَفعال کو تو کسی حد تک جانتے ہیں لیکن اُن کے عملی اِستعمال کی شکلوں اور تراکیب سے ناواقف رہتے ہیں۔


اِس لیے مدارس کے طلبہ اور اَساتذہ اوّلاً تو عربی بولنے یا لکھنے سے بچتے ہیں۔ اگر اُ ن میں سے کچھ اسے بولنے یا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو اُن کے جملوں میں لغت، صرف، نحو اور محاوروں کی غلطیاں اِتنی کثرت سے ہوتی ہیں کہ اُن کی اِصلاح کرنا ممکن نہیں ہوتا،کیونکہ اُنہوں نے اگرچہ زبان کے اِن چاروں اَجزاء کو سالہا سال تک پڑھا بلکہ رَٹا ہوتا ہے ،لیکن اُنہیں اُن کے عملی اِستعمال کی مشق اور تربیت سے محروٗم رکھا جاتا ہے ، لہٰذا اُسے لکھنے  یا بولنے کی اِستعداد حاصل نہیں کر پاتے ، حالانکہ اُن کے لیے عربی ایک نہایت آسان زبان ہے ۔ اگر انہیں کچھ ہی عملی تربیت کرا دی جاتی تو وہ اُسے خوب لکھ بول سکتے ہیں۔


اب میں محترم علمائے کرام، تعلیمی ماہرین، عربی زبان و ادب کے معلّمین و معلّمات نیز عزیز طلبہ و طالبات کے سامنے اس مسئلے کو آسانی سے پیش کرنے کے لیے عربی زبان کی تعلیم و تدریس کی چند مثالیں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول