صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


عقیدہ طحاویہ

امام ابو جعفر طحاوی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

قرآن کریم

  

قرآن کلام الہی ہے ، وہ باری تعالی کی ہی فرمائی (تکلم کی) ہوئی بات ہے ، اس کی کوئی کیفیت متعین نہیں ، اپنے رسول پر بطریق وحی نازل فرمایا۔ اور جمیع مسلمان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ، اور یقین رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالی کا حقیقی کلام ہے ، اور مخلوق کے کلام کی طرح مخلوق نہیں ؛ لہذا جو شخص قرآن سنے اور یہ کہے کہ وہ انسان کا کلام ہے تو وہ کفریہ بات کہتا ہے  اور ایسے انسان کی اللہ تعالی نے برائی بیان کی ہے اور اسے جہنم (سقر) کی دھمکی دی ہے ، چنانچہ قرآن میں ہے  : " ساصلیہ سقر " (میں عنقریب اسے جہنم میں ڈالوں گا)۔ اللہ کی یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو یہ کہتا تھا کہ " ان ہذا الا قول البشر " (کہ یہ تو انسان کی باتیں ہیں) ، پس ہمیں یقین ہے کہ یہ قرآن خالق بشر کا کلام ہے ، اور کسی بشر کے کلام کے مشابہ نہیں۔  

اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کو انسانی صفت و حالت سے متصف کرے وہ کفر کرتا ہے ، پس جس شخص نے یہ سمجھ لیا ، اس نے درست کام کیا۔ اور کافروں جیسی باتیں کرنے سے بچ گیا ، اور اس نے جان لیا کہ حق تعالی اپنی صفات میں کسی انسان کے مشابہ نہیں۔


رویت باری تعالیٰ (یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار)



حق تعالی کی رویت (دیدار) اہل جنت کو  یقینا نصیب ہوگا۔ جس میں ذات باری تعالی کا احاطہ نہ ہوگا اور نہ کوئی کیفیت ہوگی۔ چنانچہ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے : " وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربہا ناظرۃ (بہت سے چہرے (لوگ) اس دن تروتازہ  اپنے رب کو دیکھیں گے)۔

اس رویت کی کیفیت و تفصیل وہی ہوگی جیسی کہ اللہ کے علم و ارداہ میں ہے۔ اور صحیح احادیث میں اس بابت جو کچھ ہے وہ سب جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ، بر حق ہے اور اس سے رسول اللہ نے جو مطلب مراد لیا وہ سب درست ہے۔ اس مسئلہ میں ہم اپنی رائے سے تاویل و وضاحت نہیں کرتے اور نہ اپنی مرضی کے خیالات باندھتے ہیں۔ اس لیے کہ دین کی ایسی باتوں میں وہی شخص سلامت  رہتا ہے جو اپنے کو اللہ و رسول کے حوالے کر دے اور ایسی مشتبہ چیزوں کی حقیقت کو اس کے جاننے والے (اللہ و رسول) کے حوالے کردے۔

اسلام پر وہی شخص ثابت قدم رہ سکتا ہے جو قرآن و سنت کے سامنے سر تسلیم خم کر کے خود کو ان کے حوالے کر دے ،  لہذا جو شخص ایسی چیزوں کی تحقیق و خوض میں مشغول ہوگا ، جس کی فہم اس کو نہیں دی گئی تو وہ توحید خالص ، معرفت صافیہ اور ایمان صحیح سے دور ہی رہے گا ، اور کفر و ایمان ، تصدیق و تکذیب ، اور اقرار و انکار میں ڈانواڈول ، گرفتار وسوسہ ، حیران و پریشان  اور مبتلائے شک و تردد  رہے گا۔ اور نہ تو مومن مخلص بن پائے گا نہ منکر جاحد۔

جنتیوں کو دیدار الہی نصیب ہونے کے عقیدہ پر اس شخص کا ایمان صحیح نہ کہلائے گا ، جو اس دیدار کو وہمی کہے یا اپنی فہم سے کوئی دوسری تاویل کرے۔

رویت باری تعالی اور دیگر تمام صفات باری تعالی میں صحیح تاویل (مطلب) یہی ہے کہ (انسانی) تاویلات کو ترک کر کے کتاب وسنت کو تسلیم کر لیا جائے۔ اور یہی مسلمانوں کو دین ہے۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول