صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اپنے دُکھ مجھے دے دو
راجندر سنگھ بیدی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
اندو نے پہلی بار ایک نظر اوپر دیکھتے ہوئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور صرف اتنا سا کہا۔ ’’جی‘‘ اسے خود اپنی آواز کسی پاتال سے آئی ہوئی سنائی دی۔
دیر تک کچھ ایسا ہی ہوتا رہا اور پھر
ہولے ہولے بات چل نکلی۔ اب جو چلی سو چلی۔ وہ تھمنے ہی میں نہ آتی تھی۔
اندو کے پتا، اندو کی ماں، اندو کے بھائی، مدن کے بھائی بہن، باپ، ان کی
ریلوے سیل سروس کی نوکری، ان کے مزاج، کپڑوں کی پسند، کھانے کی عادت، سبھی
کا جائزہ لیا جانے لگا۔ بیچ بیچ میں مدن بات چیت کو توڑ کر کچھ اور ہی
کرنا چاہتا تھا لیکن اندو طرح دے جاتی تھی۔ انتہائی مجبوری اور لاچاری میں
مدن نے اپنی ماں کا ذکر چھیڑ دیا جو اسے سات سال کی عمر میں چھوڑ کر دق کے
عارضے سے چلتی بنی تھی۔ ’’جتنی دیر زندہ رہی بیچاری‘‘ مدن نے
کہا۔ ’’بابو جی کے ہاتھ میں دوائی کی شیشیاں رہیں۔ ہم اسپتال کی
سیڑھیوں پر اور چھوٹا پاشی گھر میں چیونٹیوں کے بل پر سوتے رہے اور آخر
ایک دن.... 28 مارچ کی شام....‘‘ اور مدن چپ ہو گیا۔ چند ہی لمحوں
میں وہ رونے سے ذرا ادھر اور گھگھی سے ذرا اُدھر پہنچ گیا۔ اندو نے گھبرا
کر مدن کا سر اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ اس رونے نے پل بھر میں اندو کو اپنے
پن سے ادھر اور بیگانے پن سے ادھر پہنچا دیا تھا.... مدن اندو کے بارے میں
کچھ اور بھی جاننا چاہتا تھا لیکن اندو نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے اور
کہا۔ ’’میں تو پڑھی لکھی نہیں ہو ں جی.... پر میں نے ماں باپ دیکھے
ہیں، بھائی اور بھابھیاں دیکھی ہیں، بیسیوں اور لو گ دیکھے ہیں۔ اس لئے
میں کچھ سمجھتی بوجھتی ہوں .... میں اب تمہاری ہوں .... اپنے بدلے میں تم
سے ایک ہی چیز مانگتی ہوں۔‘‘
روتے وقت اور اس کے
بعد بھی ایک نشہ سا تھا۔ مدن نے کچھ بے صبری اور؟؟؟؟کے ملے جلے شبدوں میں
کہا.... ’’کیا مانگتی ہو؟ تم جو بھی کہو گی میں دو ں گا۔‘‘
’’پکی بات؟‘‘ اندو بولی۔
مدن نے کچھ اتادلے ہو کر کہا۔ ’’ہاں ہاں .... کہا جو پکی بات۔ ‘‘
لیکن
اس بیچ میں مدن کے من میں ایک وسوسہ آیا.... میرا کاروبار پہلے ہی مندا
ہے، اگر اندو کوئی ایسی چیز مانگ لے جو میری پہنچ ہی سے باہر ہو تو پھر
کیا ہو گا؟ لیکن اندو نے مدن کے سخت اور پھیلے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ملائم
ہاتھوں سے سمیٹتے ہوئے ان پر اپنے گال رکھتے ہوئے کہا۔
’’ تم اپنے دکھ مجھے دو۔‘‘
مدن
سخت حیران ہوا۔ ساتھ ہی اپنے آپ پر ایک بوجھ اترتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے
چاندنی میں ایک بار پھر اندو کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ کچھ نہ
جان پایا۔ اس نے سوچا یہ ماں یا کسی سہیلی کا رٹا ہوا فقرہ ہو گا جو اندو
نے کہہ دیا۔ جبھی یہ جلتا ہوا آنسو مدن کے ہاتھ کی پشت پر گرا۔ اس نے اندو
کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا۔
’’دئے ....!‘‘ لیکن ان سب باتوں نے مدن سے اس کی بہیمت چھین لی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭