صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


آپا
اور دوسرے افسانے

ممتاز مفتی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

نفرت

عجیب واقعات تو دنیا مںھ ہوتے ہی رہتے ہںا مگر ایک معمولی سا واقعہ نازلی کی طبیعت کو یک لخت قطعی طور پر بدل دے، یہ میرے لئے بے حد حیران کن بات ہے۔ اس کی یہ تبدیلی میرے لئے معمہ ہے۔ چونکہ اس واقعہ سے پہلے مجھے یقین تھا کہ اس کی طبیعت کو بدلنا قطعی ناممکن ہے۔ اس لئے اب مںہ یہ محسوس کر رہی ہوں کہ نازلی وہ نازلی ہی نہں  رہی جو بچپن سے اب تک میری سہیلی تھی۔ جیسے اس کی اس تبدیلی مںد انسان کی روح کی حقیقت کا بھید چھپا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہ ایک بہت ہی معمولی واقعہ تھا یعنی کسی بھدے سے بدنما آدمی سے خدا واسطے کا بغض محسوس کرنا.... کتنی عام سی بات ہے۔

سہیلی کے علاوہ وہ میری بھابی تھی۔ کیونکہ اس کی شادی بھائی مظفر سے ہو چکی تھی۔ اس بات کو تقریباً دو سال گزر چکے تھے۔ مظفر میرے ماموں زاد بھائی ہں  اور جالندھر مںک وکالت کرتے ہںی ۔

یہ واقعہ لاہور اسٹیشن پر ہوا۔ اس روز مںس اور نازلی دونوں لائل پور سے جالندھر کو آ رہی تھںے ۔

ایک چھوٹے سے درمیانے درجے کے ڈبے مں  ہم دونوں اکیلی بیٹھی تھںئ ۔ نازلی پردے کی سخت مخالف تھی۔ برقعے کا بوجھ اٹھانا اس سے دوبھر ہو جاتا تھا۔ اس لئے گاڑی مںر داخل ہوتے ہی اس نے برقع اتار کر لپیٹا اور سیٹ پر رکھ دیا۔ اس روز اس نے زرد رنگ کی ریشمی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس مںک طلائی حاشیہ تھا۔ زرد رنگ اسے بہت پسند تھا اور اس کے گورے گورے جسم مںد گلابی جھلک پیدا کر دیتا تھا۔

اس کی یہ بے پردگی اور بے باکی مجھے پسند نہ تھی۔ مگر اس بات پر اسے کچھ کہنا بیکار تھا۔ آتے جاتے لوگ اس کی طرف گھور گھور کر دیکھتے مگر وہ اپنے خیالات مںا یوں مگن تھی جیسے جنگل مںپ تن تنہا بیٹھی ہو۔ دو تین گھنٹے تو یونہی گزر گئے مگر لاہور کے قریب جانے کون سا اسٹیشن تھا، جہاں سے دو نوجوان لڑکے سوار ہوئے۔ مجھے تو کسی کالج کے طالب علم نظر آتے تھے۔ ان لڑکوں نے ہر اسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر ہمں  تاڑنا شروع کر دیا۔ ہمارے ڈبے کے سامنے آ کھڑے ہوتے اور متبسم نظروں سے ہماری طرف دیکھتے۔ پھر آپس مںا باتںن کرتے اور آنکھوں ہی آنکھوں مںت مسکراتے۔ نازلی ویسے ہی بے باکی سے کھڑکی مںڑ بیٹھی رہی بلکہ میرا خیال ہے کہ اسے اتنا بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ نوجوان اسے دیکھ رہے ہںی ۔ اس وقت وہ ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ میرے لئے اس کی یہ بے نیازی بے حد پریشان کن تھی۔ مںھ کچھ شرم اور کچھ غصہ محسوس کر رہی تھی۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا۔

میں نے کہا۔ ’’نازلی برقع پہن لو۔ دیکھو لڑکے کب سے تمہںا تاڑ رہے ہںو ۔ ‘‘

’’کہاں ہں  ؟‘‘ اس نے چونک کر کہا، پھر مسکرا دی۔ ’’دیکھنے دو۔ ہمارا کیا لیتے ہں  ۔ آپ ہی اکتا جائںے گے.... بے چارے۔ ‘‘

’’مگر برقع اوڑھ لینے مںو کیا حرج ہے؟‘‘

’’اگر برقع اوڑھنے سے لوگ یوں گھورنا چھوڑ دیں تو شاید عورتںہ برقع اوڑھنا ترک کر دیں ۔ برقع پہن لوں تو یہی ہو گا کہ سامنے کھڑے ہونے کی بجائے ادھر ادھر منڈلاتے پھریں گے۔ ‘‘

’’تم بھی حد کرتی ہو۔ ‘‘

’’میں کہتی ہوں نجمی ایمان سے کہنا۔ کیا تم اپنے آپ کو چھپانے کے لئے برقع پہنتی ہو؟‘‘ وہ مجھے نجمی کہا کرتی تھی۔ چونکہ اس کے خیال کے مطابق نجم النساء گنگنا نام تھا۔ وہ بے اختیار ہنس دی۔ ’’اچھا مان لیا کہ تم واقعی اپنے آپ کو چھپانے کے لئے برقع پہنتی ہو۔ چلو مان لیا برقع پہن کر تم لوگوں پر یہ ظاہر کرتی ہو کہ اس برقعے مںل چھپانے کے قابل چیز ہے۔ یعنی ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ یقین نہ ہو تو خود دیکھ لیجئے اور یہ برقع تو دیکھو۔ ‘‘ اس نے میرے برقع کو ہاتھ مںئ مسلتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ریشمی بوسکی فیتے۔ جھالر یہ تو برقع بذات خود خوبصورت ہے اور برقع والی کیا ہو گی۔ اندازہ کر لیجئے۔ واہ کیا خوب پردہ ہے۔ ‘‘

’’تم خوامخواہ بگڑتی ہو۔ ‘‘ مںع نے تنک کر کہا۔ ’’بگڑنا تو خیر ہو گا.... مجھے تمہاری طرح بننا نہں‘ آتا۔ ‘‘ ’’پگلی کبھی عورت بھی پردے مںن رہ سکتی ہے۔ دیکھتی نہںی ہو۔ عورتوں نے پردے کو بھی زیبائش بنا دیا ہے۔ آخر جو بات ہے اسے ماننے مںو کیا حرج ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنس پڑی....

’’تمہیں تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔ ‘‘ مںع نے بگڑ کر کہا۔

’’لو اور سنو۔ جو ہم کہںک ، وہ تو ہوا مذاق اور جو آپ کہںا ، وہ حقیقت ہے۔ ‘‘

’’اچھا بابا معاف کرو۔ بھول ہوئی۔ اب برقعہ تو اٹھا لو کیا ان درختوں سے بھی پردہ کرو گی؟‘‘

’’تمہارے خیالات بہت عجیب ہںھ ۔ ‘‘ مںو نے برقعہ اتارتے ہوئے کہا۔ اسٹیشن بہت دور رہ گیا تھا اور گاڑی ایک وسیع میدان سے گزر رہی تھی۔

’’عجیب.... ہاں عجیب ہںو ۔ اس لئے کہ وہ میرے اپنے ہںہ ۔ اگر مںٹ بھی تمہاری طرح سنی سنائی باتںو شروع کر دوں تو تم مجھ سے کبھی ناراض نہ ہو۔ ‘‘

’’سنی سنائی....؟‘‘

’’ہاں سنی سنائی، اس لئے کہ یہ باتںہ ظہیر صاحب کو بہت پسند ہںے اور تم چاہتی ہو کہ وہ تمہںر چاہںس ۔ تمہارے میاں جو ہوئے۔ یہ سنہری چوڑیاں ہی دیکھو۔ یاد ہے تم سنہری چوڑیوں کو کیسی نفرت کی نظر سے دیکھا کرتی تھںا ؟ مگر یہ انہںز پسند ہںہ نا۔ اس لئے یہ بوجھ اٹھائے پھرتی ہو۔ ان کی محبت کی محتاج جو ٹھہریں ۔ ایمان سے کہنا۔ کیا یہ غلط ہے؟ مجھے تو ایسی محتاجی گوارا نہںی ۔ تم ہی نے تو مردوں کا مزاج بگاڑ رکھا ہے۔ ورنہ وہ بے چارے۔ ‘‘

’’تمہیں بھی تو زرد رنگ پیارا ہے نا؟‘‘

’’ہاں ہے اور رہے گا۔ میری اپنی پسند ہے۔ مںس اپنے میاں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہں  بننا چاہتی کہ جیسا جی چاہںں ، نچا لںن ۔ مںڑ نے ان سے بیاہ کیا ہے۔ ان کے پاس اپنی روح گردی نہںا رکھی اور تم.... تمہاری تو مرضی ہے ہی نہںے ۔ تم تو ہوا کے رخ مںہ اڑنا چاہتی ہو۔ ‘‘

دفعتاً گاڑی نے جھٹکا کھایا اور وہ لڑھک کر مجھ پر آ گری۔

۔۔۔۔۔اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول