صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
انوَار سَاطعَہ
در بیان مولود و فاتحہ
حافظ محمد عبد السمیع سہارن پوری
تسہیل و تجدید، تخریج و تحقیق: محمد افروز قادری چریاکوٹی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
انوارِ ساطعہ کا تاریخی پس منظر (اقتباس)
میلاد النبی اور فاتحۂ مروجہ کی اصل حدیثِ نبوی سے ثابت ہے، اسی لیے یہ ہمیشہ سے علما و مشائخ ملت اور اکابر امت کا معمول رہا ہے۔ محفل میلاد النبی کی اصل یہ ہے کہ سرورِ کائنات، فخر موجودات، سید الانبیا کی ولادتِ طیبہ اور سیرتِ طیبہ کو بیان کیا جائے۔ جامع ترمذی جو صحاح ستہ میں سے مشہور اور معتمد کتاب ہے، اس میں ایک باب ہے: باب ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(ان احادیث کا بیان جو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادتِ طیبہ کے بارے میں آئی ہیں۔) اس باب میں ایک حدیث صحابیِ رسول حضرت قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
قَالَ : وُلِدَتُّ أنا و رسولُ اللّٰہِ عَامَ الفِیلِ۔ قال: وسأل عثمانُ بنُ عفّان قباثَ بنَ أَشْیمَ أخَا بني یَعْمر بن لیث :أنت أکبرُ أم رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ فقال: رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أکبَرُ مِنِّی، وأنا أقدم منہ فی المیلاد۔(۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) جامع ترمذی، ج: ۲؍ ص: ۲۰۲، مطبوعہ مجلس برکات، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، ۱۴۲۳ھ/ ۔۔۔۔۲۰۰۲ء۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھوں نے کہا:میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال پیدا ہوئے جس میں اصحابِ فیل کا واقعہ پیش آیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے قباث بن اشیم صحابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم بڑے ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ تو انھوں نے کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں، اور میں پیدائش میں ان سے پہلے ہوں۔
اس حدیث کی روشنی میں جہاں یہ ثابت ہوا کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ کا بیان نہ صرف جائز بلکہ صحابہ کا طریقہ ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ذکر نہایت تعظیم و ادب سے کرنا چاہیے، جس میں توہین و تنقیص کا ادنیٰ شائبہ بھی نہ ہو، کیوں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سوال کا مقصد یہی تھا کہ اے قباث بن اشیم ! عمر میں آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں ؟ جس کا سیدھا سا جواب یہ تھا کہ ’’میں بڑا ہوں ‘‘۔ مگر اس میں بہ ظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ہونے کی بات تھی تو صحابیِ رسول کو یہ بھی گوارا نہ ہوا اس لیے تعبیر بدل کر ایسا جواب دیا کہ ظاہر کے اعتبار سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ہونے کا شائبہ نہ ہو اور فرمایا کہ ولادت میں میں ان سے مقدم اور پہلے ہوں۔ اسی طرح قرآن کریم کی آیت ’ قَدْ جَاءَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ نُوْرٌ‘ ( یقیناً تمہارے پاس اللہ کی جانب سے ایک نور آ گیا) اور آیت کریمہ وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِین میں سرکار کی آمد کا ذکر ہے۔
اسی بنا پر سلفِ صالحین، علمائے دین، مشائخ طریقت اور اساطین امت محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کرتے رہے اور اس میں برابر شرکت کرتے رہے،حد یہ ہے کہ امام ابو شامہ استاذ امام نووی، امام ابن جزری، حافظ عماد الدین بن کثیر، حافظ زین الدین عراقی، امام ابن حجر عسقلانی، حافظ جلال الدین سیوطی،علامہ شہاب الدین قسطلانی، علامی عبد الباقی زرقانی مالکی،علامہ ملا علی قاری حنفی،شیخ عبد الحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی وغیرہ بے شمار اساطینِ امت بلا نکیر محفل میں شریک ہوتے رہے، بلکہ بہت سے علمائے کرام نے محفل میلاد کے لیے مستقل کتابیں لکھیں۔صاحبِ انوار ساطعہ نے نورِ سوم کے لمعہ تاسعہ میں ان علما و محدثین اور مشائخ طریقت کی ایک لمبی فہرست پیش کی ہے۔ اسی طرح فاتحہ اور ایصالِ ثواب بھی پوری امت مسلمہ میں رائج تھا۔
یہی حالات تھے کہ مغلیہ حکومت کے زوال کے تقریباً بیس سال بعد سہارن پور اور اس کے اطراف کے چند اسلاف بیزار مولویوں نے اس عملِ خیر اور مجلسِ خیر کے خلاف آواز اٹھائی اور دہلی کے غیر مقلد وہابی علما سے یہ سوال کیا:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ مولود خوانی و مدحت حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ہیئت سے کہ جس مجلس میں امردانِ خوش الحان گانے والے ہوں، اور زیب و زینت و شیرینی و روشنی ہائے کثیرہ ہو اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب و حاضر ہوں، جائز ہے یا نہیں ؟ اور قیام وقتِ ذکرِ ولادت جائز ہے یا نہیں ؟ اور حاضر ہونا مفتیان کا ایسی مجلس میں جائز ہے یا نہیں ؟ اور نیز بروز عیدین پنج شنبہ وغیرہ کے آب و طعام سامنے رکھ کر اس پر فاتحہ وغیرہ ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اور اس کا ثواب اموات کو پہنچانا جائز ہے یا نہیں ؟ اور نیز بروز سوم میت کے لوگوں کو جمع کر کے قرآن خوانی اور بھونے ہوئے چنوں پر کلمۂ طیبہ مع پنج آیت پڑھنا اور شیرینی وغیرہ تقسیم کرنا بحدیث نبوی جائز ہے یا نہیں ؟ بَیِّنُوا تُوجَروا۔
اس سوال نامہ کا جواب ان کی طرف سے یہ دیا گیا :
انعقادِ محفل میلاد اور قیام وقت ذکر پیدائش آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرونِ ثلاثہ سے ثابت نہیں ہوا۔پس یہ بدعت ہے۔ اور علی ہذا القیاس بروز عیدین و غیر عیدین و پنج شنبہ وغیرہ میں فاتحۂ مرسومہ ہاتھ اٹھا کر پایا نہیں گیا البتہ نیابۃً عن ا لمیت بغیر تخصیص ان امور مرقومۂ سوال کے للہ مساکین و فقرا کو دے کر ثواب پہنچانا اور دعا اور استغفار کرنے میں امید منفعت ہے۔ اور ایسا ہی حال سوئم، دہم، چہلم وغیرہ، اور پنج آیت اور چنوں اور شیرینی وغیرہ کا عدم ثبوت حدیث اور کتب دینیہ سے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بدعاتِ مخترعات ناپسند شرعیہ ہیں ‘‘۔ اس فتویٰ پر دہلی کے تین غیر مقلد علما کے دستخط تھے۔ (۱) مولوی حفیظ اللہ (۲) مولوی شریف حسین (۳) الٰہی بخش۔ اور اُن کے علاوہ درج ذیل علمائے دیو بند و گنگوہ وسہارن پور کے تائیدی دستخط بھی تھے۔ (۱) مولوی محمد یعقوب،صدر مدرس مدرسہ دیو بند (۲) مولوی محمد محمود حسن، مدرس مدرسہ دیو بند (۳) مولوی محمد عبد الخالق دیو بند ی (۴) مولوی رشید احمد گنگوہی۔
گنگوہی صاحب کے الفاظ یہ ہیں :
ایسی مجلس ناجائز ہے اور اس میں شریک ہونا گناہ ہے، اور خطاب جناب فخر عالم علیہ السلام کو کرنا اگر حاضر ناظر جان کر کرے کفر ہے، ایسی مجلس میں جانا اور شریک ہونا ناجائز ہے، اور فاتحہ بھی خلاف سنت ہے اور سوم بھی، کہ یہ سنتِ ہنود کی رسوم ہے ۔۔ التزام مجلس میلاد بلا قیام و روشنی وتقاسیم شیرینی و قیوداتِ لایعنی کے، ضلالت سے خالی نہیں ہے۔ علی ہذا القیاس سوم و فاتحہ بر طعام کہ قرونِ ثلاثہ میں نہیں پائی گئی۔
اس زمانے میں یہ محفل میلاد و فاتحہ وعرس کے خلاف پہلا فتویٰ تھا جو چار ورقی تھا اور ۱۳۰۲ھ میں مطبع ہاشمی میرٹھ سے شائع ہوا، اس کی سرخی تھی : فتویٰ مولود و عرس وغیرہ۔پھر دوسرا فتویٰ مطبع ہاشمی میرٹھ ہی سے چھپا جس کا عنوان تھا : فتویٰ میلاد شریف یعنی مولود مع دیگر فتاویٰ۔ یہ چوبیس صفحے کا تھا اس میں محفلِ میلاد شریف کی بڑی مذمت کی گئی تھی اور پہلا چار ورقی فتویٰ بھی اس میں شامل کر دیا گیا تھا۔ ان فتووں نے مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بویا اور عوامِ اہلِ سنت کو طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا کیا۔ اس علاقے کے لوگ زیادہ تر شیخ المشائخ حاجی امدادُ اللہ صاحب فاروقی چشتی تھانوی سے بیعت و ارادت کا تعلق رکھتے تھے، جو کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کے حالات کی ناساز گاری کی وجہ سے ۱۲۷۶ھ / ۱۸۵۹ء میں مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے تھے، اور حاجی صاحب کے مرید با صفا اور خلیفۂ صادق عالمِ ربانی حضرت مولانا محمد عبد السمیع بے دؔل رام پوری سہارن پوری (متوفی ۱۳۱۸ھ ) اہلِ سنت و جماعت کے مرجع و مقتدا تھے اور صبر و قناعت اور زہد و ورع میں اپنے پیرو مرشد کے آئینہ دار تھے، اس لیے حاجی صاحب کے مریدین اور دیگر اہل سنت نے آپ سے بصد اصرار فرمائش کی کہ آپ ان کا جواب لکھیں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں میلاد و فاتحہ وعرس کا صحیح شرعی حکم واضح فرمائیں۔ اس لیے مولانا رام پوری نے قلم اٹھایا اور چند دنوں میں انوار ساطعہ در بیان مولود و فاتحہ کے نام سے ایک شاندار وقیع اور افراط و تفریط سے پاک کتاب تیار کر دی اور اس میں قرآن و حدیث اور اصول شریعت کی روشنی میں میلاد و فاتحہ کا جواز ثابت کیا اور تائید میں سلفِ صالحین، فقہا و محدثین اور مشائخِ طریقت کے اقوال و معمولات کو بھی پیش کیا۔(۱)
جب یہ کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی تو اہل سنت و جماعت میں مسرت و شادمانی کی ایک لہر دوڑ گئی، اور اسے اس قدر قبول عام حاصل ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں اس کے سارے نسخے ہاتھوں ہاتھ نکل گئے۔ جب یہ کتاب دیو بند، گنگوہ اور سہارن پور کے وہابی علما تک پہنچی تو انہیں اپنے پیروں تلے سے زمین کھسکتی نظر آئی۔ آخر کار ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے ‘‘ کے مطابق وہابی دیو بندی علما کے سر گروہ مولوی رشید احمد گنگوہی (متوفی ۱۳۲۲ھ ) نے اس کے جواب میں ایک کتاب لکھ کر اپنے مرید خاص مولوی خلیل احمد انبیٹھوی سہارن پوری (متوفی ۱۳۴۶ھ ) کے نام سے شائع کرائی، جس کا لمبا چوڑا چار سطری نام اپنے خاص ذوق کے مطابق یہ رکھا : البراہین القاطعۃ علی ظلام الأنوار الساطعۃ، الملقّب بالدلائل الواضحہ علی کراھۃ المروَّج من المولود و الفاتحۃ اور نیچے یہ عبارت لکھوائی : ’’بہ امر حضرت بقیۃ السلف، حجۃ الخلف، رأس الفقہاء والمحدثین، تاج العلماء الکاملین جناب مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ‘‘۔(۲)
۔۔۔۔۔۔
(۱) انوار ساطعہ، ص:
(۲) براہین قاطعہ گنگوہی صاحب ہی کی تصنیف ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکیم عبد الحئی رائے بریلوی نے اسے گنگوہی صاحب کی تصانیف میں شمار کرایا ہے اور خلیل احمد انبیٹھوی کی تصانیف میں اسے ذکر نہیں کیا۔ عبارت یہ ہے : لہ مصنفات مختصرۃ قلیلۃ منھا ۔۔۔۔ البراہین القاطعۃ في الردّ علی الأنوار الساطعۃ للمولوي عبد السمیع الرامفوری۔ طُبِعَ باسم الشیخ خلیل أحمد السہارنفوری۔( نزھۃ الخواطر،ج: ۸، ص: ۱۶۶، مطبوعہ ندوۃ العلما لکھنؤ۔)
۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭