صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


آنگن آنگن رات

ماجد صدیقی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں


آنکھ دِکھا کر بس اتنا سا اپنا زور بتائے گا

ہم تم جس کو جھُوٹ کہیں وُہ اُس کو سچ ٹھہرائے گا

کون کہے بیوپاری، سودا اغوا ہونے والی کا

کن کن سنگدلوں کے آگے کس کس طور چُکائے گا

کاش اُنہیں جتلا پائے تُو، اصل بھی اپنے ناتے کی

جھنڈا جن کی کاروں پر، اے دیس! ترا لہرائے گا

اپنے جیسے ہی لگتے ہیں چَوک پہ بیٹھے راج مجھے

مول گجر دم سیٹھ کوئی جن کا آ کر ٹھہرائے گا

اِترائے گا جب بھی کبھی بیٹھے گا اپنے جیسوں میں

کون ستم گر ہے جو اپنی کرنی پر پچتائے گا

شور زمینِ فکر ہے جس کی اور سینے میں زور بہت

کرنے کو اچّھا بھی کرے تو، کیا اچّھا کر پائے گا

چھید ہوئے جاتے ہیں جسِ کشتی میں، اُس کے کھینے کو

دُور فرازِ عرش سے جانے، کون فرشتہ آئے گا

زورِ ہوا سے ٹہنیاں ٹوٹیں، پات جھڑے جن پیڑوں کے

کون سخی ایسا، جو اِن کے یہ زیور لوٹائے گا

خوشیوں پر رنجیدہ، اِک دُوجے کے رنج پہ جو خو ش ہیں

تو کیا اُن سِفلوں کو ماجدؔ دل کا حال سُنائے گا

٭٭٭


ابروئے چشم دشمناں جیسا

تن گیا آسماں کماں جیسا

جبر کے موسموں سے زنگ آلود

جو بھی تھا برگ، تھا زباں جیسا

بھُولنے پر بھی دھیان جابر کا

پاس رہتا ہے پاسباں جیسا

جو بھی ہوتا ہے دن طلوع یہاں

سر پہ آتا ہے امتحاں جیسا

ہے نظر میں جو خواب سا ماجدؔ

ہے کوئی سروِ گلستاں جیسا

***


پھر وقت ہمیں اشک بہم کرنے لگا ہے

ساون در و دیوار کو نم کرنے لگا ہے

تعمیر کا شیدا ہے پیمبر بھی فنا کا

انسان یہ کیا طُرفہ ستم کرنے لگا ہے

اے کاش وہ نوعیتِ بخشش بھی سمجھ لے

ہم پر جو سخی لُطف و کرم کرنے لگا ہے

دریا نے بھی لو کام جلانے کا سنبھالا

بپھرا ہے تو کھلیان بھسم کرنے لگا ہے

چھیڑا نہ کبھی مانی و بہزاد نے جس کو

وُہ کاج بھی ماجدؔ کا قلم کرنے لگا ہے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول