صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اندھیروں کی کہانی
سید اسد علی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نیند سے پہلے کا ایک گھنٹہ
میں نے سر بستر کے پشت
سے ٹکا کر جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اور مجھے کچھ یوں محسوس ہوا جیسے میرے دماغ میں چیختے،
چنگھاڑتے سارے خیالات بھی رخصت ہو گئے ہوں۔ جیسے گولی چلنے پر درختوں پر بیٹھے کوے۔
مگر کوے تو ایک چکر لگانے کے بعد پہلے سے زیادہ
زور و شور کے ساتھ کائیں کائیں کرتے آن موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے شاید یہ
مثال کچھ صحیح نہ ہو۔
شاید یہ مثال غلط ہو
مگر میں تو اس لمحے کی بات کر رہا ہوں جو ان خیالات کی واپسی سے پہلے کا ہے اور جس
میں یہ مثال validہے۔ تو
جب سب خیالات رخصت ہوئے تو مجھے لگا کہ اب میں یکسوئی سے کچھ سوچ سکوں گا۔ کوئی
بہتر، کوئی بڑا خواب۔ بہت دولتمند بننے کا یا کسی حسین اداکارہ سے شادی کر لینے جیسے
حقیر خواب تو میں ہر وقت دیکھا کرتا تھا۔
مگر ذہن خالی کہاں ہوا؟اس
خواب کا خیال تو یہیں ہے نہ!
اور نجانے ایسا اور کیا
کیا کچھ ہو۔ میں اسے خاموش خیالات کہوں گا۔ اور ان کی مثال سبز پتوں میں چھپے ہرے
طوطوں کی جانو۔ جو آپ کے اردگرد بھرے ہوتے ہیں اور آپ ان کے وجود سے نا آشنا رہتے
ہو۔ مگر طوطے خاموش کہاں رہتے ہیں؟ادھر بولے اور ادھر وہ طلسم ٹوٹا جس نے انہیں ڈھانپ
رکھا تھا۔ مگر مثال بہرحال اس خاموشی اور آوازوں کے بیچ کے وقفے میں تو کام کر ہی
جائے گی۔ اور مجھے اسی لمحے کی بات کرنا ہے۔ تو اس لمحے جب خاموش رہنے والوں کا
احساس ممکن نہیں اور شور کرنے والے رخصت ہو چکے ہیں ممکن ہے کہ میں اسے سوچ سکوں۔ اسے
جو۔۔۔۔۔۔۔۔
اف! !!! مگر یہ ٹیوب
لائیٹ سے نکلنے والی ہلکی سی آواز۔ جیسے کوئی چھوٹا جھینگر تان لگاتا ہے۔ اور مچھر
کے اس آخری دانے کی بھنبھناہٹ جو تمام حفاظتی تدابیر کے باوجود یہاں موجود ہے۔ اس
کمرے میں میرے جسم سے بہتر اور مکمل ترین چیزیں موجود ہیں۔ جیسے اس گوری اور قدرے
فربہی کی طرف مائل برطانوی اداکارہ کی تصویر۔ کیسا کافر ہے جو اس صنم کدہ کو چھوڑ
کر مجھ جیسے راندۂ درگاہ کا طواف کر رہا
ہے۔ شاید گرم سرخ خون، زندگی کی ایک لہر زیادہ اہم ہوتے ہیں حسن مطلق کے پرتو سے
بھی۔ یہ ایک سبق میں نے اس مچھر سے سیکھا ہے۔
ہاں یہ آسان ہے، سیدھا اور واضح ہے اس لئے فلسفیانہ عقائد کے شکوہ کے
سامنے کم حقیقت نظر آتا ہے اور ہم انسان جو دوسری انواع سے برتری کے زعم میں سادگی
میں پیچیدگیاں ڈھونڈتے ہیں اسے کیسے قبول کر لیں۔ میں بھی اسے قبول نہ کروں گا۔ مگر
مچھر کا مجھ پر لپکنے کا فیصلہ اس کی فطرت کی پکار ہے۔ بس یوں جان لیں کہ ایک دریا
ہے جس میں وہ بہاؤ کی سمت بہتا ہے اور مجھے بہرحال اس کی مخالف سمت میں ہاتھ پاؤں چلانے
ہوں گے کیونکہ میں بہ حیثیت نوع اس سے برتر ہوں۔
تو شور کرنے والے چلے
گئے، خاموش رہنے والوں کا ادراک ممکن نہیں۔ ٹیوب لائیٹ کا شور اور مچھر کی بھنبھناہٹ
حاصل ہیں میری ارتکاز فکر کا۔ اس سے تو بہتر نہیں کہ کمبل جو میری ٹانگوں کے نیچے
دبا ہے اسے ذرا اوپر کھینچ لوں اور پرسکون
انداز میں خود کو گرم بستر کے حوالے کر دوں۔
بھلا سوچو کہ آپ سطحی خیالوں
سے خود کو خالی کرتے ہو کہ کچھ بہتر سوچ سکو مگر حاصل کیا ہوتا ہے۔ زیر ذہن
کلبلاتے ہوئے بیکار احساسات۔ اگر کوئی ذرا اور کریدنے کا حوصلہ رکھے تو وہ پائے گا
ایک خود غرض اور مکار چہرہ جو ہاتھوں میں چابک لئے خیالات کے گھوڑوں کو دوڑائے چلا
جا رہا ہے۔ ایک ایسی منزل کے طرف جہاں دوسرے کہ سکیں کہ سچائی کی کھوج میں وہ بہت
دور تک گیا۔ تو اس لگن، اس ارتکاز کا مقصد تھا سب سے ماورا ہو کر سچ کی تلاش اور
ملا کیا؟ہاتھ نہ آنے والے مچھروں سے تھک کر خود میں چھپے ستائش اور فریب کے رذیل
احساسات تک آ پہنچا۔
کوئی بہت بڑا تعلق نہیں
ہے ان مختلف حالتوں کا جن سے میں اس مختصر سے وقت میں گذرا، مگر ایک بات یقینی ہے
کہ یہ سفر بلندی سے پستی کی طرف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگلی پرت کھلنے پر نسبتاً زیادہ
ناقابل برداشت منظر میرے سامنے ہو گا۔
سفر نصیب سہی مگر منزل
تو کہیں اور ہے نہ۔ چلو واپس چلتے ہیں۔ مچھر کی بھنبھناہٹ سے، طوطوں کی چہچہاہٹ تک
اور پھر میں پہنچتا ہوں چکر کاٹ کر واپس آتے ہوئے کوؤں تک۔ اب پھر میرے ذہن میں ناچ
رہے ہیں اور اودھم مچا رہے ہیں وہ سارے خیال اور میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل رہی
ہے۔ چلو دوسری جانب سفر شروع کرتے ہیں۔ کمبل کو چہرے تلک بڑھا لو اور آنکھیں موند
لو۔ میں نہیں کہتا کہ سچائی یہاں ہے۔ مگر وہ وہاں بھی تو نہ تھی اور اگر تھی بھی
تو اتنی تعفن زدہ شئے کو میں اپنی حقیقت کیسے تسلیم کر لوں؟اس کی مثال ایسے جانو جیسے
سخت محنت کے بعد تمہارے جسم سے پسینے کی بدبو پھوٹنے لگتی ہے اور پھر راہگذر پر
تمہارے ساتھ چلتی خاتون اسے محسوس کر کے ناک
کو انگلی سے مسلتی ہے۔ اسے یقین دلانے کے لئے کہ یہ کہیں اور سے آ رہی ہے
تم بھی چہرے پر بے اطمینانی کو لے آتے ہو۔ وہ تمہاری طرف ایسی محبت بھری نگاہ سے دیکھتی
ہے جس سے ایک کشتی میں سوار دو مسافر ایک
دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ تم مطمئن ہو جاتے ہو۔
پھر وہ گردن گھما کر
ادھر ادھر دیکھتی ہے اور کسی کو نہ پا کر
سمجھ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس شعور کے ایک لمحے سے پہلے تک تو میری مثال لاگو
ہوتی ہی ہے۔ تو چلو جمائی لو، کاغذ کو سلیقے سے تپائی پر سجا دو اور آنکھوں کو
پرسکون انداز میں بند کر لو۔ نیند سے پہلے کا ایک گھنٹہ کسی تخلیقی کام میں صرف
کرنا کتنا خوشگوار تجربہ ہوا کرتا ہے۔
٭٭٭