صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کوئی آواز
قاسم خورشید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
رات (اقتباس)
وہ پھر آ گئی۔
میرے
سرہانے بیٹھ گئی۔ میں اسے محسوس کرنے لگا۔ مگر اپنی آنکھیں بند کئے تھا۔
وہ سمجھ لے کہ میں سو چکا ہوں یا پھر سونا چاہتا ہوں ۔ وہ جانتی تھی کہ
میں اس کے بغیر سو نہیں سکتا۔ وہ مجھے تھپکیاں دیتی ہے مگر دھیرے دھیرے
کچھ بولتی ضرور ہے۔ اس کی سرگوشیوں کو میں سنتا ہوں ۔ مگر جان بوجھ کر
کوئی جواب نہیں دیتا۔ میرے جواب سے پھر نئے سوالوں کا لامتناہی سلسلہ شروع
ہو سکتا تھا۔ وہ ایک طرح سے دھیرے دھیرے میرے وجود پر حاوی ہونے کی کوشش
کرتی ہے۔ آج پھر وہی ہوا جو روز ہوا کرتا تھا۔ اسی سوال نے پھر
چھیڑا۔
’سو گئے کیا…؟‘
خاموشی…
’میں پوچھ رہی ہوں سو گئے کیا؟‘
پھر خاموشی…
’میں
سمجھ گئی۔ اب تم پھر وہی چاہ رہے ہو! مگر جان لو ایسا کچھ بھی نہیں کرنے
والی ہوں ۔ تم خود مجھے جگاؤ گے اور میں بھی سونے کی مُدرا میں تمہارے
سامنے اوندھے پڑی رہوں گی… سوچ لو… پھر ایسا ہوا تو تم ساری رات سو نہیں
پاؤ گے…۔ میں کچھ بول رہی ہوں … تم سن بھی رہے ہو یا نہیں ؟…کہیں ایسا تو
نہیں کہ تم سچ مچ سو گئے! مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے میرے بغیر تمہیں نیند
کیسے آسکتی ہے؟ … اوہ سنو! اٹھو بھی ورنہ میں رونے لگوں گی اور تم تمام
رات مجھے چپ کرواتے رہنا۔ اور اگر میں سو گئی تو تمہیں جاگتے ہی رہنا ہو
گا۔ ٹھیک ہے جاؤ میں آج سے تمہیں پریشان نہیں کروں گی۔ تمہیں جو اچھا لگے
وہی کرو۔ اگر میرے بغیر بھی سونے میں کامیاب ہو جاؤ گے تومیں تمہاری زندگی
سے بہت دور چلی جاؤں گی۔ بس آخری بار کہہ رہی ہوں تم مجھ سے بات کرو گے یا
نہیں ؟‘
وہ بولتی رہی۔ میں سنتا رہا۔ آج میرا یہ ارادہ تھا کہ کیا وہ
سچ مچ مجھ سے ناراض بھی ہو سکتی ہے؟ کیا وہ تھک کر سو جائے گی یا پھر مجھے
جگانے کے لئے کوئی اور حربہ استعمال کرے گی۔ میں بدستور خاموش رہا۔ وہ بھی
چپ ہو گئی۔ اس نے کچھ اور کر گزرنے کے لئے شاید سوچنا شروع کر دیا تھا۔
مگر دیر تک خاموشی پسری رہی تو میں بے چین ہو گیا۔ اس کے رونے سسکنے یا
چھیڑنے کی آواز نہیں ملی تو میں چونک کر اٹھ گیا۔ ارے یہ کیا؟ وہ ابھی
میرے پاس تھی اور اچانک غائب بھی ہو گئی۔ میں نے اٹھ کر کمرے کی کھڑکی
کھولی۔ باہر دور دور تک کوئی نظر نہیں آیا۔ چاروں طرف شہر روشنی میں نہایا
ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ کبھی کبھی اکا دُکا گاڑیوں کے آنے جانے کا سلسلہ
ضرور قائم تھا۔ میرا چھوٹا سا کمرہ ہے۔ یہی میری کائنات ہے۔ اس سے باہر تو
یہ بڑا شہر ہے جو ساری رات جاگتا ہی رہتا ہے۔ پھر اپنی تشفی کے لئے میں
اسے اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگا۔ پھر کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا۔ ارے یہ
تو اندر سے بند ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کہیں آس پاس ہی چھپی ہے۔ میں
جانتا ہوں ، کچھ دیر بعد وہ کہیں سے نمودار ہو گی اور میری آنکھیں اس کی
انگلیوں کے لمس کو محسوس کریں گی۔
میں نے کچھ دیر اس کا انتظار کیا۔
پھر سوچنے لگا کہ میرے کمرے کا دروازہ تو عجیب ہے میں باہر جا کر اسے اندر
سے بھی بند کرتا رہا ہوں ۔ بس آسان طریقہ ہے کہ باہر سے اندر کی طرف تھوڑا
سا جھٹکا دینا پڑتا ہے اور وہ اندر سے بند ہو جاتا ہے۔ خاموشی اندر قید ہو
کر رہ جاتی ہے۔ وہ بھی میری راز دار ہے۔ اس نے بھی ایسا ہی کیا ہو گا۔
مگر
میں نے دروازہ بند ہونے کی آواز بھی نہیں سنی۔ آخر وہ اس طرح کیسے جا سکتی
ہے۔ جو بھی ہوا ہو مگر وہ کمرے میں نہیں ہے۔ یہ مجھے یقین ہوچلا تھا۔ پھر
بھی اپنے آپ کو مزید مطمئن کرنے کے لئے میں نے اسے آواز دی۔
’نشا… نشا… ارے کہاں ہو؟ لو میں جاگ گیا … سن رہی ہو؟‘
پھر بھی خاموشی پسری رہی۔میں نے دوبارہ آواز دی۔
’دیکھو
زیادہ پریشان مت کرو۔ اب آ بھی جاؤ۔ میں تم سے ہی کہہ رہا ہوں ، نہیں آؤ
گی تو میں اب تمہیں بلانے والا نہیں ہوں … یار … تھک جاتا ہوں ۔ ذرا سوچو!
دن بھر کڑی محنت۔ شور شرابہ۔ آخر میں بھی آدمی ہوں … مشنا تو بن نہیں
سکتا۔‘
۔
٭٭٭