صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


قرآن کا تصورِ امن

پروفیسر سید مسعود احمد


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

نبی کریم ﷺ کی مخصوص حیثیت

    دوسرا اہم نکتہ نبی اکرم ﷺ کی، سلسلۂ نبوت میں اپنی مخصوص حیثیت ہے جس کے تحت آپ محض اللہ تعالیٰ کے رسول ہی نہیں ، بلکہ آخری رسول ہیں ۔ آپؐ کو بہ حیثیت ختم الرسل تکمیلِ دین اور اتمام شریعت کا عملی مظاہرہ مختلف شکلوں میں کرنا تھا (المائدہ-۳) اظہار علی الدین اس کی اہم ترین شِق ہے (التوبہ- ۳۳، الصف-۹، الفتح- ۲۸)۔ اس کے لیے ’سیاسی قوت‘ اور اسلامی حکومت کا قیام ناگزیر ہے ۔ چنانچہ اہل علم کی آراء کے مطابق دینِ اسلام عقلی طور پر اور دلیل کی سطح پر تو ہر زمانہ میں ظاہر و غالب رہا، البتہ اللہ تعالیٰ کی مرضیات کے حقیقی قیام اور اسلامی قوانین کے کلی نفاذ کے لیے اقامتِ دین کی مکمل شکل آں حضرت ﷺ ہی کے دست مبارک پر قائم ہونی تھی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یُرِیْدُونَ اَن یُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَیَاْبَی اللّہُ إِلاَّ اَن یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَO ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بُجھا دیں مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کیے بغیر نہ مانے گا چاہے اسے کافر ناپسند ہی کریں ۔ اسی اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت
لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ  (التوبۃ:۳۲-۳۳)
اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے چاہے اسے مشرک کتنا ہی ناپسند کریں ۔
    ان آیات سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد ﷺ کے ہاتھوں اظہار دین ہو کر رہے گا۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودی کے نزدیک ان آیات میں لفظ ’رسول‘ سے مراد تمام انبیاء کرام فرداً فرداً ہیں ،۶؎  یعنی ان کے نزدیک ہر رسول کی بعثت کا مقصد اظہار علی الدین ہوتا ہے ، قطع نظر اس سے کہ ’اظہار علی الدین کلہ‘ اپنے کامل عملی شکل میں ظہور پذیر ہو یا نہ ہو۔ ان کے نزدیک اللہ کا رسول اس کے قانون پر ہی عمل کرتا ہے اور کم از کم اپنے اور اپنے متبعین (Followers)  کی سطح پر خدائی قانون کے زیر سایہ زندگی گزار تا ہے ۔ جب کہ مولانا امین احسن اصلاحی اس سے آخری رسول حضرت ’محمد ﷺ‘ مراد لیتے ہیں اور ’’واللہ متم نورہٖ‘‘ سے ربط قائم کرتے ہوئے اظہار علی الدین کو دین کی تکمیل کی شرح قرار دیتے ہیں ۔ ۷؎
    آنحضرت ﷺ کے ختم رسالت پر مبنی اس مخصوص منصب کی اور بھی جہات ہیں ۔ مثلاً آپؐ کے بعد تا قیامت کوئی رسول مبعوث نہ ہونے کی وجہ سے آپؐ کے پیروکاروں کے کندھوں پر دعوتِ اسلام کی ذمہ داری بھی آ جاتی ہے اور اس عالَم اسباب و علل میں ’خاتم نبوت‘ کے لیے حسّی معجزات کا ظہور بھی خلافِ حکمت قرار پاتا ہے ۔ یعنی اگر فی الواقع ایسا ہوتا کہ دشمنانِ اسلام کو اللہ تعالیٰ معجزاتی طور پر سماوی عذاب سے ہلاک کرتا تو امت مسلمہ کے لیے دعوتِ دین کے ہر مرحلہ میں دستِ غیب کا تصور اس کی صلاحیتوں کے ابھرنے میں مانع ہوتا۔ یہ عذر قائم رہتا کہ ہمارے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان تبلیغِ اسلام کے طریقوں کے تعلق سے کوئی یکسانیت نہیں ہے ، لہذا ہم انبیائی مشن کے مکلف نہیں ۔ چنانچہ حکمتِ خداوندی کے تحت اس عذر کی بھی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی اور پیروان رسولِ خاتم کے ہاتھوں دشمنانِ دین متین کی ہلاکت کا فیصلہ فرمایا (الانعام- ۶۵، انفال-۴۲) اور مسلمانوں کو جنگ کی اجازت مرحمت فرمائی گئی (الحج -۳۹)۔
    یہاں اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ قرآن مجید کی تحریکِ امن اس محدود معنٰی میں امن و سلامتی کی تحریک نہیں تھی جو انفرادی طور پر روحانی و نفسیاتی سکون کے ہم معنٰی ہو، یا زیادہ سے زیادہ مجرد اجتماعی امن کا نعرہ لے کر اٹھی ہو، بلکہ قرآن کا موضوع بنی آدم اور انسان کُل ہے اور اس کے گو نا گوں مسائل ہیں ۔ قرآن حکیم نہ صرف ان تمام مسائل کا پائدار اور حقیقی حل تجویز کرتا ہے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر انسان کی حقیقی فلاح و کامرانی کی طرف بھی رہ نمائی کرتا ہے ۔ اس کے مطابق ان دونوں بیش بہا نشاناتِ منزل یعنی امن و سکون کا قیام اور فلاح و ترقی کے حصول کے لیے اس دنیا میں عدل و قسط کا قیام ناگزیر ہے اور اس نظامِ عدل و میزان کو لوہے یعنی عسکری قوت کے بغیر قائم نہیں کیاجا سکتا (الحدید-۲۵) ۔ اخلاقی قوت و طاقت بے شک صالح انقلاب کا بہت بڑا عامل و محرک ہوتی ہے اور اس کا بھر پور استعمال اسلام کی عین منشا بلکہ اس کا بنیادی حکم ہے ، مگر یہ کُل نہیں ہے ، کیوں کہ اس عالم خیر و شر میں شیطان کا وجود بھی مسلّم ہے اور یہ انسان نما شیاطین ظلم و فساد کو بزور جبر قائم رکھنا چاہتے ہیں اور شریفوں کے حسنِ اخلاق کو بزدلی گردانتے ہیں ۔ چونکہ شیطان انسان کو سکون سے جینے تک کا حق نہیں دیتا، لہذا دفع فتنہ اور ازالۂ منکرات نیز مظلومین کی مدد کے لیے ، بالفاظ دیگر فتنہ و فساد پر بندھ باندھنے کے لیے داخلی طور پر ایمان دار پولیس اور محکمۂ انصاف اور خارجی سطح پر مضبوط و با رعب نیز شہادت کی متمنی فوج کی موجودگی ہی پائدار اور حقیقی امن و سکون کے قیام کی ضمانت دیتے ہیں ۔
٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول