صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
انبیاءؑ اور الہامی کتابیں
بچوں کے لئے
ہارون یحیٰ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ہمارے سارے نبی
اللہ تعالیٰ نے ہمیں غور و فکر اور تدبر کی صلاحیتیں اس لئے عطا کی ہیں تاکہ اس کی وجہ سے ہم اس کائنات میں بکھری نشانیاں دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو پہچان سکیں۔ اللہ تعالیٰ کی کیا منشاء(چاہت،مرضی) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ سب الہامی کتابوں کے ذریعے انسان تک پہنچا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا انتخاب کیا۔ ان پیغمبروں نے اپنے اخلاقِ حسنہ کے ذریعے لوگوں کے لئے مثالیں قائم کیں۔ پیغمبروں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لئے اپنا پیغام وحی کے ذریعے نازل کیا۔ اس بات کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کتنے پیغمبر بھیجے ، لیکن اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق تین سو تیرہ پیغمبر بھیجے گئے۔ اسی طرح کچھ روایات کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ چو بیس ہزار ہے۔ ہم صرف ان انبیاء کے نام جانتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ قرآنِ کریم انسانوں کی ہدایت کے لئے آخری الہامی کتاب ہے۔ اس قرآن پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قابل بنایا تاکہ ہم انبیاء کی زندگیوں کے بارے میں جان سکیں اور ان مثالوں کو اپنی زندگیوں میں اپنا سکیں۔ وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ کیا ہے اور یہ کہ ہمیں اس دنیا میں کسی قسم کا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ صرف وحی کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچا اور ہمیں یہ پتہ چلا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں اور کون سے بُرے اور یہ کہ قرآنی اخلاقیات و اقدار کیا ہیں۔ یہ وحی کا ہی علم ہے جس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ کونسا ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کے حقدار قرار پائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال کا بھی پتہ چلتا ہے جن کی وجہ سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملے گی۔
قرآن میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ تاریخِ انسانیت میں اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام کی طرف پیغمبر مبعوث فرمائے۔ انہوں نے اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف مدعو(دعوت دی) کیا اور دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کو مانو اسی کی عبادت کرو اور اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہیں مانو گے تو پھر اس کی طرف سے عذاب کا انتظار کرو۔ ان انبیاء نے منکرین کو خبردار کیا اور اُن لوگوں کو بھی جو کہ مختلف اقسام کی برائیوں میں پھنسے ہوئے تھے،اس کے علاوہ قرآن پاک میں مومنین کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام و اکرام اور مغفرت اور رحمت کی خوشخبری بھی دی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لئے آخری نبی ہیں اور اس طرح قرآن آخری الہامی کتاب ہے۔
گزشتہ الہامی کتابیں اپنی اصلیت کو برقرار نہ رکھ سکیں ۔ کیونکہ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا اور دوسرا یہ کہ کچھ جاہل اور بدنیت لوگوں نے ان کتابوں میں رد و بدل کر دیا اور ان میں ذاتی رائے شامل کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں آج اپنی اصلی حالت میں نہیں ہیں جیسا کہ اصل میں نازل کی گئیں تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف قرآن پاک نازل فرمایا اور پھر اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لیا ۔اس لئے اسے بدلنا ناممکن ہے کیونکہ یہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے ہدایت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے اور پھر بعد میں آنے والے مسلمانوں کے ذریعے قرآن پاک کی حفاظت کی۔ قرآن پاک اتنا واضح اور آسان ہے کہ ہر کوئی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ جب ہم قرآن پاک کو پڑھتے ہیں تو ہمیں فوراً یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ قرآن پاک وہ واحد کتاب ہے جو چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے اور یہ وہ واحد الہامی کتاب ہے جس پر عمل کرنے کی ذمہ داری قیامت تک آنے والے لوگوں پر ہے۔
آج تمام مسلمان چاہے وہ جہاں کہیں بھی بستے ہیں اسی قرآن کو پڑھتے ہیں۔ اس کے کسی زیر اور زبر میں بھی کمی بیشی نہیں ہوئی ۔ قرآن پاک حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا ،اس کو حضرت ابو بکرؓ نے ترتیب دیا۔ بعد میں اس کے نسخے حضرت عثمانؓ نے تیار کروائے۔ اُس وقت سے اب تک 1400سال گزر چکے لیکن آج بھی وہ قرآن پاک ویسا ہی ہے۔ قرآن پاک اللہ اور اس کے رسول کے درمیان پیغام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح قرآن روزِ اول میں نازل ہوا آج بھی اسی طرح حفاظت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بد لوگوں سے اس کی حفاظت کی ہے جو کہ اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے۔
’’ بے شک یہ کتابِ نصیحت ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں’‘ (الحجر: ۹)
اس آیت میں لفظ ’’ہم’‘ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔وہی قادرِ مطلق ہے، ہر شئے کا خالق ہے۔ وہ اول سے ہے اور آخر تک رہے گا۔ہر وقت موجود ہے اور اس کا علم ہر شئے کا احاطہ کیے ہوے ہے۔ کئی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ’’میں’‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور بعض اوقات ’’ہم’‘ ۔عربی زبان جو کہ قرآن پاک کی زبان ہے، اس میں ہم کا لفظ بھی واحد کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ استعمال کرنے والا بڑی طاقت کا مالک ہو۔ جاہ و جلال کا مالک ہو، بڑی قدرت والا ہو، بادشاہ ہو اور سننے والے پر اپنی یہ تمام خصوصیات ظاہر کرنا چاہتا ہو۔ یہ الفاظ انگریزی میں بھی استعمال ہوتے ہیں، جیسے ’’The Royal We’‘ ( بادشاہ یا ملکہ کے اپنے لئے استعمال کیے جانے والے الفاظ جیسے ہم یا ہمارا) اس کتاب کے باقی حصوں میں ہم قرآنِ پاک کی آیات اور سورتوں کا حوالہ دیں گے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے بہتر کلام کس کا کلام ہو سکتا ہے، یہ کلام اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نازل فرمایا ہے جو کہ ہمیں ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے کیونکہ وہ خالق ہے اور ہم مخلوق وہ ذات لامحدود ہے اور ہم محدود ۔ محدود لا محدود کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی منشا ہے کہ انسان انبیاء ؑ کی زندگی کی مثالوں سے سبق حاصل کریں اور ان کی زندگیوں کو اپنائیں۔
ایک آیت میں اس طرح فرمایا :
’’ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘(یوسف: ۱۱۱)
اس آیت میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ ایسے ہیں جو کہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جو غور و فکر کرتے ہیں،جو تدبر کرتے ہیں،جو سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ،جو استدلال رکھتے ہیں اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن اقوام کی طرف انبیاء ؑ مبعوث فرمائے اب ان اقوام کے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کے لیے ذمہ دار ہیں اور اس بات کے بھی ذمہ دار ہیں کہ اس پیغام پر عمل بھی کریں۔ واضح پیغام آنے کے بعد قیامت کے دن لوگ کسی قسم کے بہانے نہیں کر پائیں گے۔،کیونکہ انبیاء ؑ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام بڑے احسن طریقے سے لوگوں تک پہنچا دیا اور یہ کہ لوگوں کو خالق و مالک کا تعارف بھی کروا دیا اور یہ بھی واضح کر دیا کہ مالک کی منشا (چاہت)کیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کے پاس بھی یہ پیغام پہنچا وہ اس کا ذمہ دار ہے۔ یہ قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے۔
’’سب پیغمبروں کو خدا نے خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا تھا تا کہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو خدا پر الزام کا موقع نہ رہے اور خدا غالب حکمت والا ہے ‘‘ (سورۃ النساء: ۱۶۵)
اللہ تعالیٰ نے اس روئے زمین پر لوگوں کے کئی گروہ پیدا کیے ۔ ان میں سے کچھ گروہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کر دہ پیغام کو ماننے سے انکار کیا اور بعض نے پیغمبروں کو ماننے سے ہی انکار کیا۔ان لوگوں نے پیغمبروں کے لائے ہوئے پیغام پر لبیک نہیں کہا اور ان کو جھٹلایا اور اس طرح وہ سزا کے مرتکب پائے گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان باغی لوگوں کو اس دنیا میں ذلت کی زندگی سے خبردار کیا۔ اس سب کے باوجود یہ لوگ مسلسل انبیاء کی توہین کرتے رہے۔ ان کا مذاق اڑایا۔ مزید برآں بعض اوقات ان لوگوں نے اپنی بغاوت کی انتہا کر دی اور حتیٰ کہ اپنے انبیاء ؑ کو قتل تک کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سزا دی اور پھر اللہ تعالیٰ ان کی جگہ اور لوگوں کو لے آیا۔ ان گروہوں کے بارے میں قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیت میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کر دیا۔ جن کے پاؤں ملک میں ایسے جما دیئے تھے کہ تمہارے پاؤں بھی ایسے نہیں جمائے اور ان پر آسمان سے لگا تار بارش برسائی اور نہریں بنا دیں جو ان کے مکانوں کے نیچے بہہ رہی تھیں۔ پھر ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر دیا اور ان کے بعد اور امتیں پیدا کر دیں’‘۔ (سورۃ الانعام: ۶)
بعد ازیں ابواب میں ہم انبیاء ؑ کے مثالی طرز عمل پر طول کلامی کریں گے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی ان باغی امتوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے صرف کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭