صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
جیون میں ایک بار جانا المانیہ اور سنگاپور
محمد خلیل الرحمٰن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
المانیہ او المانیہ۔ جرمنی کی سیر
ہمیں
کالے پانی کی سزا ہو گئی۔ یہ وہی سزا ہے جسے منچلے پردیس کاٹنا کہتے ہیں۔
سنتے ہیں کہ قسمت والوں ہی کے مقدر میں یہ سزا ہوتی ہے۔ عرصہ ایک سال ہم
نے بڑی کٹھنائیاں برداشت کیں اور یہ وقت کاٹا۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے لیے
اس علاقے ہی کو جنت نظیر بنا دیا گیا۔ پھر تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں
اور سر کڑھائی میں۔ پھر ہمیں یہ مژدہ جاں فزا سننے کو ملا کہ ہمیں جرمنی
میں پانچ ہفتے کی تربیت یا جبری مشقت کے لیے چن لیا گیا ہے۔ ہم خوشی سے
پھولے نہ سمائے۔ اپنا سفری بیگ اٹھایا اور کراچی کے لیے روانہ ہو گئے۔ گھر
پہنچ کر گھر والوں کو بھی یہ خوشخبری سنائی۔ وہ بھی بہت خوش ہوئے اور جواب
مضمون کے طور پر ہمیں ایک اور خوشخبری سنا دی۔
’’ تمہارے چھوٹے بھائی کا تبادلہ بھی اسلام آباد کر دیا گیا ہے اور اب وہ بھی تمہارے ساتھ ہی رہے گا۔ ‘‘
ابھی یہ بم ہمارے سر پر اچھی طرح پھٹنے بھی نہیں پایا تھا کہ بھائی نے گرینیڈ سے ایک اور حملہ کر دیا۔
’’ بھائی! یہ بتاؤ کہ کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اسلام آباد ائر پورٹ پر کسٹم پہلے ہوتا ہے یا پھر امیگریشن؟‘‘
ہم
نے خون کے گھونٹ پی کر اس حملے کو بھی برداشت کیا اور سفر کی تیاریوں میں
لگ گئے۔ اگلے روز کمپنی کے صدر دفتر پہنچے تو پرِ پروانہ اور دیگر ضروری
دستاویزات کے ساتھ ایک عدد لمبی چوڑی فہرستِ اشیائے ضروریہ ہمارے حوالے کی
گئی جن کا بہم پہنچایا جانا ہماری ہی صحت کے لیے بہت ضروری تھا۔
بڑے
بھائی ( مرحوم ) کو ساتھ لیا اور بھاگے بھاگے لنڈا بازار پہنچے اور وہیں
سے یہ تمام اشیاء بصد شوق خریدیں جن میں ایک عدد گرم سوئٹر، گرم واٹر پروف
دستانے، ایک جوڑی لمبے جوتے، اندر پہننے کے لیے گرم پائجامے اور ایک عدد
لانگ اوور کوٹ شامل تھے۔
اس اوور کوٹ کی کہانی بھی بہت دلچسپ
ہے۔ جب ہم فخر سے اسے پہن کر باہر نکلتے تو گورے اور گوریاں ہمیں حیرت سے
آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے۔ بقول جناب مختار مسعود:۔
’’
چلتے چلتے کسی نے نگاہِ غلط انداز ڈالی اور کسی نے نظر انداز کیا۔ نظر بھر
کر دیکھنے والے بھی گو دوچار سہی، اس بھیڑ میں شامل تھے۔ ( برف کدہ۔ سفر
نصیب)
واپسی پر اندازہ ہوا کہ ہم نے غلطی سے زنانہ اوور کوٹ
مول لے لیا تھا۔ جس کے بٹن الٹی جانب تھے۔ ہم نے چونکہ زرِ کثیر صرف کر کے
یہ قیمتی اوور کوٹ مول لیا تھا، لہٰذا اب اس کا استعمال ترک نہیں کر سکتے
تھے۔ ہم نے اسے عرصہ کئی سال تک یورپ کے اکثر سفروں میں استعمال کیا یہاں
تک کہ بیگم نے اسے سیلاب فنڈ میں دے دینے کا اعلان کر دیا اور ہم اس قیمتی
اوور کوٹ سے جبراً محروم کر دئیے گئے۔
٭٭٭