صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دس عالم شعراء
ظہیر دانش عمری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
خواجہ میر دردؔ
(۱۷۲۰۔ ۱۷۷۵)
حضرت خواجہ میر درد کے اجداد بخارا کے باشندے تھے۔ سلسلۂ نسب والد کی طرف سے حضرت خواجہ بہاؤالدین نقش بندی سے جا ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے حضرت عبدالقادر جیلانی سے۔ والد کا نام خواجہ ناصر تھا۔ جو فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ عندلیبؔ تخلص کرتے تھے۔ لفظ خواجہ کے معنی مالک اور سردار کے ہیں۔ یہ لفظ سادات کے لئے بطور خاص استعمال ہوتا تھا۔
۶۶سال کی عمر میں والد خواجہ ناصر عندلیب کا انتقال ۱۱۷۲ء میں ہوا۔ میر دردؔ۱۱۱۹ء میں پیدا ہوئے۔ تصوف اور شاعری ورثے میں پائی۔ اوائل عمر سے ہی ان کا رجحان شاعری اور مذہب کی طرف تھا۔ بچپن سے تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں رسالہ احکام الصلوٰۃ لکھا۔ اس دور میں کم عمری میں شادی کرنے کا رواج تھا۔ والد نے اسی دوران ان کی شادی کر دی۔ جبکہ ان کی اہلیہ کی عمر صرف ۱۲سال تھی۔ اس کے بعد تا دم حیات دردؔ اپنے علم سے خلائق کو مستفید کرتے رہے۔ حتی کہ ۱۷۸۵ء میں مالک حقیقی سے جا ملے۔
میر دردؔ کی شاعری تصوف اور تغزل کے رنگ سے منوَّر ہے۔ زبان بڑی تیکھی اور رواں دواں تھی۔ ان کے کلام میں آورد نام کو نہ تھا۔ بس آمد ہی آمد تھی۔ اس حوالے سے دردؔ لکھتے ہیں :
’’فقیر کے اشعار باوجود رتبۂ شاعری کی روایت کے ، پیشۂ شاعری اور اندیشۂ ظاہری کے نتائج نہیں۔ بندے نے کبھی شعر بدون آمد کے آورد سے موزوں نہیں کیا اور بتکلف کبھی سحر شعرو سخن میں مستغرق نہیں ہوا۔ کبھی کسی کی فرمائش اور آزمائش سے متأثر ہو کر شعر نہیں کہے ‘‘
دردؔ کی غزلیں متصوفانہ خیالات ، معاملہ بندی ، نزاکت ، حسن خیال ، شوخی اور لطافت سے معمور ہیں۔ وہ بڑی نغمگی سے بھر پور مترنم بحروں کا انتخاب کرتے تھے۔ مکالماتی انداز بیان سے ایسا تأثر چھلکتا ہے جو قاری کو اپنی لپیٹ میں پوری طرح لے لیتا ہے۔ وہ روزمرہ کی زبان بڑی بے تکلفی اور خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو نور یا نار کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا ہے اگر انسان راہ حق کا راہی ہو جائے تو اس کی افضلیت فرشتوں سے بڑھ جاتی ہے۔ اسی عظمت کا اظہار دردؔ کے متعدد شعروں میں ہمیں محسوس ہوتا ہے
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ارض و سماں کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
شمس العلماء مولوی سید امداد امام اثر ؔ لکھتے ہیں :
’’خواجہ میر دردؔ کی غزل سرائی نہایت اعلی درجے کی ہے۔ سوز و گداز میں ان کے جواب میں میر تھا یا آپ اپنا جواب تھے۔ واردات قلبیہ کے مضامین ایسے باندھتے تھے کہ سودا ان تک نہ پہونچتے تھے۔ ہرچندخواجہ کا دیوان مختصر ہے۔ مگر قریب قریب انتخاب کا حکم رکھتا ہے ‘‘
(دیوان دردؔ ۔ مرتبہ:فاروق ارگلی۔ صفحہ:۵)
نکات الشعراء میں میر ؔ نے آپ کا تذکرہ بڑے احترام بھرے اور محبت بھر ے الفاظ میں کیا ہے :
’’خواجہ میر التخلص بدردؔ جوش بہار گلستان سخن عندلیب خوش خوان چمن ایں فن، زبان گفتگو پیش گرہ کشائے زلف شام مدعا........شاعر زور آور در ریختہ، خلیق ، متوا۔ ضع ، آشنائے درست، شعر فارسی ہم می گوید امابیشتر رباعی، گرمی بازارو وسعت مشرب اوست‘‘
(نکات الشعراء۔ مصنفہ:خواجہ میر تقی میر ؔ ۔ مرتبہ:مولوی عبد الحق۔ مطبوعہ:۱۹۳۵ء صفحہ:۵۰)
دردؔ کی مندرجہ ذیل کتابیں یادگار زمانہ ہیں :رسالۂ اسرار الصلوۃ، رسالۂ واردات، علم الکتاب، رسالۂ اربعہ، نالۂ درد، آہ سرد، درد نہاں ، شمع محفل ، دیوان فارسی ، دیوان اردو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭