صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


حرفِ الف

محمد یعقوب آسی


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں

اس کی صورت تو لگتی ہے کچھ جانی پہچانی سی

لیکن اس کو کیا کہئے، وہ آنکھیں ہیں بیگانی سی

دنیا کے ہنگاموں میں جب یاد کسی کی آتی ہے

جانے کیوں جاں پر چھا جاتی ہے قدرے ویرانی سی

لوگ مشینی دنیا کے، انسان نہیں کل پرزے ہیں

تھل کی ریت، چناب کی موجیں رہ گئی ایک کہانی سی

آج کے دور کی بات کرو، یہ دور بڑا دکھیارا ہے

عارض و لب، گیسو کے سائے، باتیں ہوئیں پرانی سی

آدمیوں کے جنگل میں انسان کوئی مل جائے تو

اس سے مل کر، باتیں کر کے ہوتی ہے حیرانی سی

آسی جانے انجانے میں کیا غلطی کر بیٹھا ہے

اس کے لہجے سے ٹپکے ہے ایک خلش انجانی سی

٭٭٭

مرا تفکر غبار سوچیں نکھارتا ہے

کہ میری آنکھوں میں سرخ شبنم اتارتا ہے

میں آج خوفِ خدا سے محروم ہو گیا ہوں

کئی خداؤں کا خوف اب مجھ کو مارتا ہے

ڈرا رہا ہے مجھے وہ میرے پڑوسیوں سے

مرے جگر میں جو زہر خنجر اتارتا ہے

مرے محلے میں میرے بھائی جھگڑ رہے ہیں

اُدھر کوئی اپنے ترکشوں کو سنوارتا ہے

حصارِ ظلمت میں کب سے انساں بھٹک رہا ہے

کسی نئے دن کو دورِ حاضر پکارتا ہے

دمِ سرافیل ہے نقیبِِ جہانِ نو ہے

وہ ایک جذبہ کہ سر دلوں میں ابھارتا ہے

نوید ہے اک جہانِ نو کی، اسی کے دم سے

”ہماری روحوں میں ارتقا پر سنوارتا ہے“

***

ربابِ دل کے نغمہ ہائے بوالعجب چلے گئے

جو آ گئے تھے شہر میں، وہ بے ادب چلے گئے


میں اپنی دھن میں گائے جا رہا تھا نغمہ ہائے جاں

مجھے نہیں کوئی خبر کہ لوگ کب چلے گئے


سیاہ رات رہ گئی ہے روشنی کے شہر میں

دکھا کے چاند تارے اپنی تاب و تب چلے گئے


زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو

تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب، چلے گئے


وہ خود رہِ وفا میں چند گام بھی نہ چل سکے

ہمیں مگر دکھا کے راستے عجب چلے گئے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول