صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


الفاظ کے وارث

سید خالد قادری


ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

الفاظ کے وارث


    یہ تحریر لفظ یا زبان کے وارثوں کے ذریعے کسی بھی عہد میں قائم کیے جانے والے اُس ڈسکورس سے متعلق ہے جو عصری سماجی اور سیاسی نظام کو حسب حالات Reinforce بھی کر سکتا ہے اور Subvert  بھی۔ اس کا وقتی محرک ’’ اردو ادب دہلی۔مئی ، جون ۲۰۰۹؁ء ‘‘ کے ڈاکٹر اسلم پرویز کے اداریے (پہلا ورق) کا ابتدائی حصہ ہے جہاں انہوں نے لفظ اور لسا ن کے بارے میں مختصر مگر پُر مغز گفتگو کی ہے۔ اُسے جہاں پر لا کر انہوں نے چھوڑا ہے وہاں سے آگے بڑھا کر میں نے اُسے اُس کے منتقی اختتام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

     جب کبھی رائج  نظام حکومت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھنے لگتا ہے تو اُس کی مزاحمت میں عوامی تحریکیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ محض حکام کے ذریعے قوانین و اختیارات کا بے جا اور غیر منصفانہ استعمال ہی نہیں ہوتا بلکہ اُس معاشرے میں موجود اُن ذہن سازوں کا اقتدار کی مخالفت میں سرگرم عمل ہو جانا ہوتا ہے جو الفاظ کے وارث ہوتے ہیں۔اِن کی غیر موجودگی یا خاموشی کی صورت میں بدترین نظام حکومت بھی عوام پر طویل عرصے تک مسلط رہ سکتا ہے تا آں کہ اُس میں موجود داخلی تضادات ہی رفتہ رفتہ اسے اُس کے زوال کے منطقی منازل تک نہ لے جائیں۔ اسی طرح کوئی نظام کتنا بھی قابل ستائش کیوں نہ ہو اُس کے استحکام کی ضمانت نہیں دی جا سکتی جب تک کہ الفاظ کے یہ وارث اُس کے حق میں اپنا منہ نہ کھولیں اور اُس کی حمایت میں بولتے اور لکھتے نہ رہیں … یعنی کہ ایک ایسے ستائشی ڈسکورس کا قائم رکھنا جس پر اہل اقتدار کے ساتھ ساتھ الفاظ کے وارثوں کی بھی مہر ہو۔

    کسی عوامی تحریک کی شروعات اور پھر اُس کے تیز تر ہونے کے پس پشت ایک قسم کی قوت ہوتی ہے۔ ایک ایسی سفاک قوت جس کی باگ ڈور عموماً انتہا پسندوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے جو الفاظ کا استعمال اس طرح کرتے ہیں کہ طاقت کے ذریعے بنائی گئی رائے عامہ فطری معلوم ہو۔ لیکن ایسے انتہا پسندوں کے لیے بھی رہبری کے لیے فضا تب تک سازگار نہیں ہوتی جب تک کہ رائج نظام کی خامیاں پوری طرح سامنے نہ آ جائیں اور وہ عوام کی نظروں سے گرنے نہ لگے … ایسی فضا تیار کرنے اور عوام کو تبدیلی کے فوری اور ناگزیر ہونے کا احساس دلانے والے یہی الفاظ کے وارث ہوتے ہیں جنہیں ادیب، شاعر، خطیب ، مولوی ، مُلا ، پادری یا دانشور اور آرٹسٹ وغیرہ کے نام دیے گئے ہیں اور جن کے اس Subversive  رول کو مثبت کے بجائے منفی مان کر زمانہ قدیم میں ہی افلاطون نے انہیں ایک مثالی جمہوریت (Ideal Republic) سے باہر رکھنے کی بات کی تھی۔

    کسی رائج نظام کے طمانیت بخش رہنے تک بنیادی طور پر مصالحت پسند اور روایت پرست عوام اُس کی مخالفت کی طرف بہ آسانی راغب نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں وہ بڑے سے بڑے عوامی لیڈر یا خطیب کو بھی باغی، ملک دشمن، یا دیوانہ سمجھنے لگتے ہیں جن کی باتوں میں آنا اُنہیں خطرے سے خالی نہیں لگتا۔ چنانچہ عام حالات میں وہ اپنی تمام تر قوتِ گفتار یا جادوئے خطابت کے باوجود اُنہیں اپنا ہمنوا نہیں بنا پاتے۔ جیسا کہ Lenin نے اعتراف کیا ہے کہ ’’ جہاں اشتراکیت کے لیے زمین پہلے سے ہموار نہ تھی وہاں عوام کو اپنا ہمنوا بنانا ہمارے لیے دشوار رہا‘‘۔

    الفاظ کے وارثوں کا معاملہ مختلف رہا ہے۔ عوام کو اُن کی باتیں سننے اور اُن پر غور کرنے میں یوں کوئی تردد نہیں ہوتا کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی باتیں کتنی ہی قابل توجہ اور ذہنوں کو تبدیل کرنے والی کیوں نہ ہوں فوری طور عمل اور ی یا نتیجہ خیزی کی متقاضی نہیں ہوتیں۔ اہل اقتدار بھی یا تو انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں یا ان کے منہ کو لگام دینے کے نرم رو طریقے اختیار کرتے ہیں۔ مگر یہی وہ صورت حال ہوتی ہے جس کے دوران الفاظ کے یہ وارث رفتہ رفتہ عوام کے ذہنوں میں رائج نظام کی بے وقعتی اور نا کردگی کا احساس کچھ اس طرح جگا دیتے ہیں کہ اُس کو بے دخل کرنا ان کا اپنا مشن بن جاتا ہے اور یوں ایک عوامی تحریک کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔

    الفاظ کے وارثوں ، انتہا پسندوں ، یا پریکٹیکل یا عملی انسانوں کی پوری طرح الگ الگ خانوں میں تقسیم ممکن نہیں۔ گاندھی اور ٹرائسکی کی طرح کے افراد ابتدا میں الفاظ کے عام وارثوں کی ہی طرح اُبھرے مگر آگے چل کر قوت ارادی اور رہبری کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بل پر تاریخ ساز اشخاص میں شامل ہو گئے۔ اوتاروں اور پیمبروں کی بھی ابتدائی زندگی اسی قسم کی رہی گو کہ بعد میں وہ عوامی ذہن سازی کے اپنے غیر معمولی عمل کو آفاق کی بلندیوں تک لے گئے۔ لینن جیسا انتہا پسند الفاظ کے غیر معمولی وارثوں میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی مثالی طور پر کامیاب رہا۔ گاندھی کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ تو واضح یہ کرنا ہے کہ انسانوں کی ان تین Categories کا کسی عوامی تحریک میں اپنے اپنے وقت پر اپنا اپنا منفرد رول ہوتا ہے۔ الفاظ کے وارث اس کے لیے ذہنی فضا تیار کرتے ہیں ، انتہا پسند موافق فضا تیار ہو جانے پر رہبری کے لیے سامنے آ جاتے ہیں اور عملی انسان اُسے مستحکم کرنے اور نتیجہ خیز بنانے کا کام کرتے ہیں۔

    جس معاشرے میں الفاظ کے وارث نہیں پائے جاتے وہاں ان کا کبھی ایک قابل لحاظ تعداد میں وجود میں آ جانا ایک انقلابی صورت حال پیدا ہو جانے کی ضمانت ہے۔ اس ضمن میں ہندوستان اور ایشیاء کے دیگر ممالک کی مثال دی جا سکتی ہے جو ایک مخصوص قسم کی برٹش کالونیاں تھیں۔ یہاں غلامی کی ہتک یا اجنبیوں کے اقتدار سے نفرت سے زیادہ جس چیز نے مزاحمت اور بغاوت کی فضا تیار کرنے میں مدد کی وہ دیسی لوگوں کے لیے خود حاکموں کا رائج کیا ہوا نیا اور لبرل تعلیمی نظام تھا جس نے الفاظ کے کتنے ہی وارث پیدا کر دیے اور اس طرح اقتدار کے خلاف جد و جہد کے لیے اسٹیج سیٹ ہو گیا۔ ہندوستان، چین اور انڈونیشیا وغیرہ کے بیشتر اہم لیڈر وہی رہے تھے جنہوں نے مغربی نظام تعلیم سے استفادہ کیا تھا۔

    الفاظ کے وارث مختلف قسم کے ہو سکتے ہیں مولوی ،مُلّا ، مبلّغ ، معلّم ، پادری ، ادیب، شاعر آرٹسٹ اور دانشور وغیرہ۔ مختلف قوموں اور علاقوں کے حالات بھی اس سلسلہ میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ چین میں جہاں لکھنا پڑھنا ایک دشوار کام تھا تھوڑی بہت بنیادی تعلیم ہی کسی فرد کو الفاظ کا وارث بنا دینے کے لیے کافی تھی۔ اسی طرح قدیم مصر وغیرہ میں جہاں تصویری تحریر گِنے چُنے لوگوں کا ہی ورثہ مانی جاتی تھی۔ ہندوستان کے ذات پات میں بٹے معاشرے میں بھی لکھنے پڑھنے پر ایک مخصوص قسم کی اونچی ذات کی ہی اجارہ داری مانی جاتی رہی ہے۔

    بہر حال الفاظ کے یہ وارث جس قسم کے بھی ہوں اقتدار کے تئیں ان کا رویہ ان کی ایک مخصوص قسم کی نفسیات ہی طے کرتی ہے۔ ان میں عام انسانوں سے ہٹ کر اپنی ایک الگ منفرد شناخت بنانے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ ’’ اَنا یا تمکنت انقلابات کا باعث ہے آزادی کا حصول تو ظاہری بہانہ ہوتا ہے ‘‘۔ نِیپولین نے کہا تھا۔ ہر دانشور کے اندر کہیں غیر محفوظ یا ناکام ہونے کا خوف پوشیدہ ہوتا ہے چاہے وہ تخلیقی یا غیر تخلیقی کیسی بھی زندگی جیتا ہو۔ کامیاب ترین یا تخلیقی طور پر حد درجہ فعال اور خدا داد صلاحیتوں سے مالامال ادیب یا آرٹسٹ بھی اپنی صلاحیتوں کے تعلق سے عموماً شبہات میں مبتلا رہے ہیں اور اُنہیں اُسے ثابت کرنے کی فکر ستاتی رہی ہے۔ اُن کا بڑ بولا پن بھی در اصل ان کی اِسی مخصوص نفسیات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان کے سامنے اپنی مادی ضرورتوں اور دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے سے زیادہ بڑا مسئلہ اپنی اَنا کو Intact رکھنے کا ہوتا ہے۔ اِسی لیے با حکمت اہل اقتدار اِن سے مشاورت کا دم بھر کر اِن کی اَنا کی تسکین کا سامان تو فراہم کر دیتے ہیں مگر عموماً وہی سب کرتے رہتے ہیں جو ان کے اپنے مفاد میں ہوتا ہے … تھوڑی بہت خوش کلامی اور عزت و وقعت انہیں ان کا موافق بنا سکتی ہے اور یہ رویہ طویل عرصے تک قائم رہے تو وہ مصاحب یا درباری بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ کارل مارکس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ اگر اُنہیں بر وقت کوئی خطاب یا بڑا سرکاری عہدہ دے دیا جاتا تو شائد وہ اپنی کہی Ideology کی تشکیل کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے۔ اِسی کے ساتھ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہی الفاظ کے وارث جب کسی نظریے یا نظام فکر کی بنیاد رکھ دیتے ہیں تو پھر انہیں عہدوں یا خطابات کے ذریعے دی جانے والی ترغیبات بھی اپنے چُنے ہوئے راستے سے نہیں ہٹا پاتیں۔

    اگر کوئی ناقص نظام اپنی اہلیت کے بہ مقابلہ زیادہ عرصے تک ٹِکا رہتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یا تو اُس میں الفاظ کے وارثوں کا کال ہے یا پھر ان کے اور اہل اقتدار کے درمیان ساز باز ہے۔ اسی طرح جس معاشرے میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد نہ صرف کافی ہے بلکہ وہ اقتدار میں حصہ دار بھی ہیں وہاں عوامی تحریکوں کے پنپنے کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ غالباً اسی بنا پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر انگریزوں نے ہندوستان میں نوابوں ، راجاؤں اور جاگیر داروں کی ناز بر داری کرنے کی بجائے یہاں کے دانشوروں ، معلموں ، ادیبوں اور مبلغوں کی اَنا کی تسکین کے سامان کیے ہوتے ، انہیں برابری کا درجہ دیا ہوتا اور اقتدار میں شامل کرنے کا کھیل رچایا ہوتا تو شائد انہیں ہندوستان میں ٹِکے رہنے کا مزید موقع مل سکتا تھا۔ مگر اپنی نسلی برتری کے شدید احساس کے باعث وہ یہ چال نہ چل سکے۔

  (اقتباس)

                                                                                 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول