صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اخترالایمان: جمالیاتی لیجنڈ
شکیل الرّحمٰن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
رومانیت
اختر الایمان جدید اُردو شاعری کے ایک منفرد رومانی شاعر ہیں۔ ان کے شعری تجربوں اور ان کی نظموں کی تکنیک نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا ہے، بلاشبہ وہ جدید اُردو شاعری میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اختر الایمان کے تجربوں کے بعض رنگوں کی پہچان عرصے تک نہ ہو سکی اس لیے کہ ان کی تخلیقی فکر مختلف ہے، وہ روایات سے متاثر ضرور ہیں لیکن ان کی شاعری روایتی نہیں ہے، نظموں کی عام کیفیتوں سے بھی گریز کیا ہے۔ تہذیب اور معاشرے میں سماجی اور نفسیاتی اقدار کی کشمکش اور تصادم کو منفرد انداز سے دیکھا ہے، ذہن کی تنہائی میں جیتے ہوئے بھی معاشرے کے مسائل اور ہیجانات سے قریب ہیں۔ ان کی نظموں سے ایک نئی رومانیت کی تشکیل ہوتی ہے۔
یہ نئی رومانیت تلخ حقیقتوں کے بہتر شعور کے ساتھ ان حقیقتوں سے فنکارانہ گریز کرتی ہے اور نئی تخلیق کرتی ہے۔ شکست و ریخت اور خارجی اور داخلی ہیجانات کے اس عہد میں یہ نئی رومانیت تصادم اور کشمکش، ذہنی دباؤ اور جذباتی تنہائی کے تجربوں کو شعری پیکروں میں ڈھالتی ہے، ایک جانب شخصیت کے کرب کی پہچان ہوتی ہے اور دوسری جانب تازہ شعری تجربے حاصل ہوتے ہیں۔
اختر الایمان کی رومانیت کی بنیاد ’ہیومنزم‘ کے جذبے پر ہے۔ ایک المناک صدی کا شاعر انسان کے مستقبل کے تعلّق سے فکر مند ہے۔ غیر یقینیت اور غیر محفوظیت کا شعور اس عہد کا شعور ہے کہ جو تخلیقی فنکاروں کو ملا ہے۔ تمنّا یہ ہے کہ دنیا خوبصورت بنے، انسان دوستی کا جذبہ اور گہرا اور وسیع رہے، رومانی شاعر نے معاشرے کے کرب کو اپنے وجود کا کرب بنا لیا ہے، رومانی فکر و نظر نے المیہ کے ساتھ المیہ کے حسن کو بھی نمایاں کر دیا ہے:
نہ وہ زمیں ہے، نہ وہ آسماں، نہ وہ شب و روز
کبھی سمٹتی کبھی پھیلتی ہیں غم کی حدود
ٹھہر گئی ہے اِک ایسے مقام پر دنیا
جہاں نہ رات نہ دن ہے نہ بے کلی نہ جمود
پکارتے ہیں ستارے سنبھالتی ہے زمیں
ہر ایک شئے سے گریزاں ابھی ہے میرا وجود
میں سوچتا ہوں کہیں زندگی نہ بن جائے
خزاں بدوش بہاریں، خمار زہر آلود!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اسی طور سے گرداں ہوں زمانے میں، وہی
صبح ہے، شام ہے، گہنائی ہوئی راتیں ہیں
کوئی آغاز، نہ انجام، نہ منزل نہ سفر
سب وہی دوست ہیں، دہرائی ہوئی باتیں ہیں
چہرے اُترے ہوئے دن رات کی محنت کے سبب
سب وہی بغض و حسد، رشک و رقابت، شکوے
دام تزویر ہے، اُلجھاؤ کی سو گھاتیں ہیں
سب گلی کوچے وہی، لوگ وہی، موڑ وہی
یہ وہی سردی ہے، یہ گرمی، یہ برساتیں ہیں
زلف کی بات ہے یا زہر کہ سب ڈرتے ہیں
کوئی دل دار، نہ دل بر، نہ ملاقاتیں ہیں
کوئی بشاش ہنسی، جینے کی نوخیز اُمنگ
کچھ نہیں بس غم و اندوہ کی باراتیں ہیں
تنگ دامانی کا شکوہ ہے خدا سے ہر وقت
ہر مرض کے لیے نسخے میں مناجاتیں ہیں
جی اُلٹ جاتا ہے اس حبس مسلسل سے مرا
ذہن جاتا ہے کسی نازش خوبی کی طرف
یعنی وہ پرتو گل خانہ بر انداز چمن
ایک پروائی کا جھونکا سا گھنی بدلی سی
شاہد نکہت و انوار سحر، راحت من
رسم دلداری ہے اس سیم بدن کے دم سے
اور مرے دم سے ہے عشاق کا بے داغ چلن
۔۔۔۔۔۔۔
کس کے قدموں کی ہے یہ چاپ یقیناً ہے وہی
یہ یقیناً ہے وہی سرو چمن، بنت بہار
کوئی رُت آئے زمانہ نہیں بدلے گا اسے
جان من تم ہو؟ نہیں ! وہ لب و عارض وہ نکھار؟
نغمگی جسم کی، وہ لوچ سا نشہ سا مدام
ایک چلتا ہوا جادو سا نگاہوں کا قرار؟
سچ کہو تم ہی ہو؟ آتا نہیں آنکھوں کو یقیں؟
(یہ دور)
نہ زہر خند لبوں پر، نہ آنکھ میں آنسو
نہ زخم ہائے دروں کو ہے جستجوئے مآل
نہ تیرگی کا تلاطم، نہ سیل رنگ و نور
نہ خار زار تمنّا نہ گمرہی کا خیال
نہ آتش گل و لالہ کا داغ سینے میں
نہ شورش غم پنہاں، نہ آرزوئے وصال
نہ اشتیاق، نہ حیرت، نہ اضطراب، نہ سوگ
سکوت شام میں کھوئی ہوئی کہانی کا
طویل رات کی تنہائیاں نہیں ہے رنگ
ابھی ہوا نہیں شاید لہو جوانی کا
حیات و موت کی حد میں ہیں ولولے چپ چاپ
گزر رہے ہیں دبے پاؤں قافلے چپ چاپ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر ہراساں سا ہے، خوف یہ ہے کہ بہاریں خزاں بدوش نہ بن جائیں اور خمار زہر آلود نہ ہو جائے، رومانی ذہن نے ایک عجیب فضا اور ماحول کو شدّت سے محسوس کیا ہے، عجیب نقش ہے، عجیب و غریب تصویر اُبھری ہے، وہ زمیں، وہ آسماں، وہ شب و روز کہاں گئے؟ غم و الم کا دائرہ ہے کہ جو کبھی سمٹتا ہے، اور کبھی پھیلتا ہے، ’وژن‘ نے ایک ایسی تصویر کو نقش کیا ہے، جو فن مصوری کو نصیب نہیں ہو سکتا، دنیا ایک ایسے مقام پر ٹھہری ہوئی ہے کہ جہاں رات ہے اور نہ دن، بے کلی ہے اور نہ جمود! رومانی فکر و نظر اور ’وژن‘ ہی اس کا جمالیاتی تاثر پیش کر سکتی ہے کہ ستارے پکار رہے ہیں، زمین سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے اور وجود دونوں سے گریزاں ہے!
اختر الایمان کی رومانیت کی ایک بڑی خصوصیت ’فنٹاسی‘ (Fantasy) ہے۔ اچھے اور بڑے شاعروں کی رومانیت نے خوبصورت، دلکش اور المناک ’فنٹاسی‘ خلق کی ہیں۔ پہلی نظم کا شاعر انسان دوست ہے، انسان کے مستقبل کی طرف سے فکر مند ہے، زندگی کے المیے کو اس کا ذہن شدّت سے محسوس کر رہا ہے، وسوسوں میں گرفتار ہے، جس طرح بعض حقیقتوں کے رد عمل کے خواب جھنجھوڑ دیتے ہیں اسی طرح رومانی ذہن اور ’وژن‘ کی خلق کی ہوئی ’فنٹاسی‘ وسوسوں کو لیے خوابوں کی مانند اُتری ہے، اور اس کے تاثرات دیر تک اُلجھائے رہتے ہیں، دیر تک المیہ کا احساس دیتے رہتے ہیں، دیر تک احساسات کو گرفت میں لیے رہتے ہیں، رومانیت نوع انسانی کی مادری زبان ہے، تخلیقی فن کار وہ شاعر ہو یا سنگ تراش یا مصور، مجسمہ ساز ہویا رقاص یا موسیقار مادری زبان کا تخلیقی استعمال کرتا ہے۔ تخلیقی استعمال میں تمثیل، استعارہ، پیکر اور فنٹاسی کی ایک دنیا خلق ہو جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭