صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
بلبلِ بُستانِ مدینہ
علامہ اخترؔ رضا ازہری بریلوی
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
چھوٹی بحور میں نعت گوئی کرتے ہوئے مؤثر پیرایۂ اظہار میں معانی آفرینی، تراکیب، پیکریت، روانی اور نغمگی جیسے عناصر کے جوہر دکھانا آسان نہیں۔ مگر علامہ اخترؔ رضا بریلوی کو اس وصف میں بھی یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ آپ کے چھوٹی بحور پر مشتمل اشعار نہایت معنی خیز ہیں۔ ان میں پوشیدہ غنائیت قاری وسامع کے قلب و ذہن کو براہِ راست متاثر کرتی ہے ؎
اے مکینِ گنبدِ خضرا سلام
اے شکیبِ ہر دلِ شیدا سلام
مصطفائے ذاتِ یکتا آپ ہیں
یک نے جس کو یک بنایا آپ ہیں
جانِ گلشن سے ہم نے منہ موڑا
اب کہاں وہ بہار کا عالم
ہر گھڑی وجد میں رہے اخترؔ
کیجیے اُس دیار کی باتیں
ہر گلِ گلسِتاں معطر ہے
جانِ گل زار کے پسینے سے
روئے انور کے سامنے سورج
جیسے اک شمعِ صبح گاہی ہے
ہر عاشقِ رسول(ﷺ)یہ چاہتا ہے کہ اُسے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ
علیہ وسلم کی زیارت سے شاد کامی حاصل ہو جائے اور وہ اپنی نظروں میں جمالِ
جہاں آرائے گنبدِ خضرا بسالے،اخترؔ رضا بریلوی نے کس درجہ حُسن و خوبی اور
والہانہ انداز میں اپنے سوزِ دروں کو پیش کیا ہے۔ نشانِ خاطر ہو شہ
پارہ ؎
داغِ فرقتِ طیبہ قلبِ مضمحل جاتا
کاش گنبدِ خضرا دیکھنے کو مِل جاتا
سبحان اللہ ! مصرعۂ ثانی ع
’’کاش گنبدِ خضرا دیکھنے کو مِل جاتا‘‘
کی بار بار تکرار کرنے کو جی چاہتا ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ صرف اخترؔ رضا بریلوی کی آواز نہیں بل کہ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ‘‘کے مصداق ہر عاشق کی آواز ہے۔
اور جب بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کا مژدۂ جاں فزا حاصل ہو گیا توقسمت کو گویا معراج مل گئی،فرشِ گیتی سے اُٹھ کر عاشق فرازِ عرش پر پہنچ گیا۔ دل کی بے قراریوں اور اضطراب کو ڈھارس بندھاتے ہوئے چشمِ شوق کو آنسو نہیں ،بل کہ موتی لُٹانے کا پیغام دیتے ہوئے حضرت اخترؔ بریلوی راقم ہیں ؎
سنبھل جا اے دلِ مضطر مدینہ آنے والا ہے
لُٹا اے چشمِ تر گوہر مدینہ آنے والا ہے
٭٭٭