صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


آخرت کی کہانی انسان کی زبانی

مولانا عبد الشکور  دینپوری


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

                                    موت کیا ہے؟

زندگی اور موت کی کشمکش ابتداء سے چلی آ رہی ہے۔ زندگی نے دعویٰ کیا کہ اس دنیا میں ہمیشہ رہوں گی۔ موت نے اس کو باطل کر کے دکھایا۔

کش مکش ہوتی رہی دن رات مرگ و زیست میں

انتہا میں موت جیتی اور ہاری زندگی

زندگی میں انسان نے مکان بنایا  کارخانے بنائے۔ دکان بنائی۔ ملیں لگائیں  باغات لگائے  کوٹھیاں ائیر کنڈیشنڈ تیار کیں  محل بنائے  آرائش و زیبائش کے سامان تیار کئے۔ بناوٹ سجاوٹ سج دھج دکھایا۔ قلعے تیار کیے اور حفاظتی جنگلے لگائے۔ مگر جب موت نے ڈیرا ڈالا۔ اجاڑ کے رکھ دیا  رہنے والے مکین چلے گئے۔ گاہک آئے دکاندار روانہ ہو چکا تھا۔ بیوی تھی  مگر بیوہ تھی۔ بچے تھے مگر بے سہارا۔ ہنستے ہوئے گھر غمزدہ ہو گئے۔ خوشی غمی میں تبدیل ہو گئی۔ آبادی بربادی میں تبدیل ہو گئی۔ خانہ سرسبز و شاداب  خراب ہو گیا۔ اللہ اللہ کتنا ہولناک منظر ہے۔ نومولود چیخ رہا ہے  مگر دودھ پلانے والی شفیق ماں دنیا سے چل بسی۔

حکایت:

حضرت ابن منبہ  فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملک الموت ایک بہت بڑے جابر ظالم کی روح قبض کر کے جا رہے تھے۔ فرشتوں نے ان سے پوچھا۔ کہ تم نے ہمیشہ جانیں قبض کیں ۔ کبھی کسی پر رحم بھی آیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ ترس اس عورت پر آیا ۔ جو جنگل میں بالکل تنہا تھی۔ جونہی اس کا بچہ پیدا ہوا  مجھے اس عورت کی جان قبض کرنے کا حکم ہوا۔ مجھے اس بچہ کی تنہائی پر بڑا ترس آیا  کہ جنگل میں جہاں کوئی دوسرا نہیں ہے  اس بچے کا کیا بنے گا؟ فرشتوں نے کہا  یہ ظالم جس کی روح تم لے جا رہے ہو۔ وہی بچہ ہے۔ ملک الموت حیران ہو گئے۔ کہنے لگے  مولیٰ تو پاک ہے بڑا مہربان ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کے برعکس دودھ بہہ رہا ہے  مگر پینے والا قبر کے اندر چلا گیا۔ ہاں ہاں بادشاہوں کے محلات مضبوط تھے۔ قلعے موجود ہیں ۔ مگر اب وہ کھنڈر ہیں ۔ خالی ہیں ۔ یادگار ہیں ۔ آثار قدیمہ ہیں ۔ عبرت گاہ ہیں ۔ تخت ہے تخت نشین نظر نہیں آتا۔ آرام کرسیاں موجود ہیں مگر کرسی نشین مفقود ۔ گاؤ تکیے رہ گئے۔ مگر ٹیک لگا کر آرام کرنے والے چلے گئے۔ اس جہان فانی میں بڑے بڑے لوگ آئے : بدکار آئے ، با وقار آئے ، انبیاء ، اولیاء ، صلحاء ، اتقیاء ، امراء ، عقلا ، فصحاء ، بلغاء آئے ، طاقتور بہادر پلوان آئے ، نوجوان آئے ، بادشاہ آئے ، وزیر آئے ، حسین آئے ، نازنین مہ جبین آئے ، سپہ سالار آئے ، شہسوار آئے ، سردار آئے ، مالدار آئے ، نیکو کار آئے ، بدکار آئے ، پدمہا  کروڑہا  لکھو کھا ہزارہا آئے ، تندرست آئے  لاچار آئے  مگر سب چند دنوں کے مہمان تھے۔ کیسے ہی ذی شان تھے۔ بہادر تھے  پہلوان تھے  موت نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ مغرور کا غرور توڑا ۔ دولت میں قارون ،  تکبر میں فرعون ، ظلم میں ہلاکو ، شہ زوری میں رستم ، خوبصورتی میں یوسفؑ ،  صبر میں ایوبؑ ، درازی عمر میں نوحؑ ، جلالی میں موسیٰ ،  عدالت میں عمرؓ ، صداقت میں صدیقؓ ، سخاوت میں عثمانؓ ،  شجاعت میں علیؓ ، شہادت میں حمزہؓ   و حسینؓ ،  فصاحت میں سبحانؒ ، عدل و انصاف میں نوشیرواں ؒ ، حکمت میں لقمانؒ ، جود میں حاتم ،  موسیقی میں تان سین ، عشق میں مجنوں ، شاعری میں انوری ، سعدی ، حافظ ، جامی ، فردوسی اور اقبال ،  خاموشی میں زکریاؑ ،  گریہ میں یعقوبؒ ،  رضا جوئی میں ابراہیمؑ ،  ادب میں اسماعیلؑ ، ذہانت میں فیضی ، حکومت میں سلیمانؑ ،  فلسفہ میں غزالیؒ ، تفسیر میں محمود آلوسیؑ ، حدیث میں بخاریؒ ،  دعوت میں نوحؑ ، خونریزی میں چنگیز خاں ، فقہ میں امام ابو حنیفہؒ ، خوش الحانی میں داؤدؑ ، سیاحت میں ابن بطوطہ ، فتح میں سکندر اعظم ، شہادت و صبر میں امام حسینؓ ، تصنیف و وعظ میں مولانا اشرف علی تھانوی ، تبلیغ میں مولانا الیاس ، سیاست میں مولانا عبید اللہ سندھی ، میدان خطابت میں حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری    اور مجاہدہ میں حسین احمد مدنی۔

عورتیں :ـ

حیاء میں مریمؑ ، امتحان میں کامیاب ہاجرہؑ ، ایمان میں بنیان مرصوص آسیہ ،  وفا میں خدیجہؓ ، علم میں صدیقہؓ ، صبر میں سمّیہؓ ، سخاوت میں زبیدہؒ ، عفت میں فاطمہؓ ، حدیث میں رفاعیہؓ   مگر یہ بھی قبر کی مہمان بن گئیں ۔

تھیں عظیم ہستیاں  مگر خالی کر گئیں بستیاں

نہ آیا جو کہ باقی رہا نہ ساغر رہا نہ ساقی رہا

بی بی عائشہ صدیقہؓ   نے فرمایا:

لو کانت الدنیا تدوم لواحد

لکان رسول اللہ فیھا مخلدا

فارسی میں کسی نے کیا عجیب کہا:

اگر کس در جہاں پایندہ بودے

ابوالقاسم محمد زندہ بودے

انسان کیسا احمق بے وقوف ہے۔ کیوں نہ ہو۔ مگر اسے موت کا یقین ہے ۔ موت کا سیاہ بادل ہر وقت سر پر منڈلا رہا ہے۔ جہاں موجود ہو ، جس جگہ ہو  ایک دن موت کے پنجہ میں گرفتار ہو گا۔ کون ہے جو دعویٰ کرے کہ یہ چیز میری ہے ، مگر ایک موت ہے جو دعویٰ کر سکتی ہے کہ یہ میرا ہے۔ آنے کا ایک راستہ ہے ۔ مگر جانے کے ہزار راستے ہیں ۔ دنیا کی زندگی موت پر موقوف ہے۔

رہ مرگ سے کیوں ڈراتے ہیں لوگ

بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ

ہم موت کو بھول جائیں ۔ مگر موت نے ہمیں نہیں بھلایا  آئے گی  ضرور آئے گی۔ یہ شکایت ہی غلط ہے کہ موت اچانک آتی ہے ۔ پہلے مطلع نہیں کرتی۔ ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے بچے ، جوان ، بوڑھے اور نوجوان مرتے دیکھتے ہیں ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ مرنے کا وقت مقرر ہے۔

سبق آموز واقعہ:

قدیم بادشاہوں میں رواج تھا کہ ایک افسر ان کو ہر صبح و شام موت یاد دلایا کرتا تھا۔ جب شاہجہاں کی تاج پوشی ہو رہی تھی۔ راگ رنگ ، ناچ گانے ، راجے مہاراجے ، خوبصورت لونڈیاں ، سپاہ لشکر سب موجود تھے۔  خزانے لٹائے جا  رہے تھے ۔ اہل اللہ دعا کر  رہے تھے ۔ فقرا ، گدا  مداح سرائی میں مصروف تھے۔ شعراء قصیدے لکھ  رہے تھے۔ انتظام و اہتمام دربار عام صبح و شام جاری تھا۔ مرصع مزین  شاندار چمکدار موتیوں والا تاج سرپر تھا۔ آفرین مبارکبادی کے پیغامات اطلاعات ، لگا تار مل  رہے تھے۔ خوشی و مسرت و شادمانی میں ہر شخص باغ و بہار تھا۔ اچانک ایک فقیر نے بلند آواز سے کہا۔ بادشاہ سلامت ! اتنی خوشی کا اظہار کرو جتنی خوشی رہ سکے۔ کل یہ تاج اتارا جائے گا ۔ یہ شاہی ختم ہو جائے گی۔ یہ عیش و عشرت سب کافور ہو جائے گی۔ جو عزت دے سکتا ہے ۔ذلت بھی دے سکتا ہے۔ شاہی دینے ولا تباہی بھی کر سکتا ہے۔ تاج دینے والا اتار بھی سکتا ہے۔ ہزاروں میں رونق افروز ہونے والا کل تنگ و تاریک قبر میں جائے گا ۔ شاہجہان کا چہرہ یکایک فق ہو گیا۔ گردن جھک گئی ، آنکھیں پرنم ہو گئیں ، دماغ چکرا گیا۔ وجود کانپنے لگا۔ فوراً تخت سے اتر کر مٹی پر سر رکھا۔ عاجزی و انکسار ی سے روتے ہوئے عرض کیا۔ کہ مالک زمین و آسمان ، اے حقیقی شاہجہان ، رب دو جہان ، اے رحیم و رحمان ، اے وارث کون و مکان ، میں کمترین انسان شاہجہان پانی کا قطرہ ، لاش محض ، محتاج فقیر ناتواں ، بندہ حقیر ہوں ۔ اے اللہ ! ذلت سے بچانا ، حکومت تیری ہے میں تیرا محکوم ہوں ، میں عاجز تو قوی ، میں انسان تو عالی شان ، میں فقیر تو مدبر ، میں فانی تو باقی ، مجھے ناز نہیں نیاز ہے ، تو ہی شرافت دے ، قوم کی خدمت دے ، بادشاہ کی اس مسکینی ، ناتوانی ، بے چینی ، بیقراری اور اضطراری کو دیکھ کو پورے دربار میں سناٹا چھا گیا ۔ تمام خوشیاں ، عیش و عشرت فکر آخرت میں تبدیل ہو گئیں ۔ ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ تمام پروگرام موقوف ، اذہان ماؤف ۔

نمے ترسی ازاں روزے کہ درگورت فروآرند

عزیزاں جملہ باز آیند تو تنہا درلحد مانی

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول