صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اخی مظفر حنفی
ترتیب: پرویز مظفر، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
قلمی چہرہ:پروفیسر ظفر احمد نظامی
چہرہ گول گفتار انمول، چہرے پر نمک پیشانی پر علمیت کی دمک، ابھری ہوئی ناک، فکر میں انہماک، بولتے ہوئے لب، رخ پر ذہانت کی تاب و تب، آنکھیں پُر نور، دل مسرور، سرپر سفید بال، برف کی شال، یہ ہیں ممتاز افسانہ نگار، نامور قلم کار، شاعر بے بدل، واقف رموز غزل، محقق باریک بیں ، شخصیت دلنشیں ، صاحب طرز تنقید نگار، اسپ ادب کے شہسوار، ماہر ادب اطفال، ادیب با کمال، قنوطی فکر حیات کی نفی.....یعنی محمد ابوالمظفر، مظفر حنفی۔
مظفر حنفی یکم اپریل ۱۹۳۶ء کو واقفِ عالم آب و گل ہوئے ، اہل دانش ور صاحب دل ہوئے ابتدائی تعلیم کھنڈوہ میں پائی، مسلم یونیورسٹی سے لو لگائی، دل کے حکم کی تعمیل کی، ایم اے ، ایل ایل بی کی تکمیل کی۔ شادؔ عارفی کے فن سے مدد لی، برکت اللہ، یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی، عبدالقوی دسنوی کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوئے ۔ شاد عارفی کی محبت میں استاد کامل ہوئے ۔ ویسے ان کا وطن فتح پور ہسوا ہے جو کھنڈوہ سے کافی دور ہے ۔ محکمہ جنگلات میں کھو کر رہ گئے ، ہسوا اور بھوپال کے ہو کر رہ گئے ۔ ۱۹۷۱ء میں دلی آ گئے یہاں کے ادبی حلقوں پر چھا گئے ۔ این سی ای آر ٹی کے پروڈکشن آفیسر ہوئے جامعہ ملیہ میں لکچر ر اور ریڈر ہوئے ۔ شہرت نے کلکتہ کھینچ بلایا، یونیورسٹی میں اقبال چیئر پروفیسر بنایا۔ ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب تدریس سے سبکدوش ہو کر اب دلی میں رہائش پذیر ہیں ۔ ادبی کارناموں کی چاندنی میں دمک رہے ہیں ۔
مظفر صاحب کو بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا شوق رہا، شعر و ادب کا ذوق رہا۔ ۱۹۴۹ء میں ادبی سفر شروع کیا۔ مڈل ا سکول کے افق پر افسانہ طلوع کیا۔ پھر تو ان کا قلم مسلسل چلنے لگا۔ ہر لمحہ تخلیق کے لیے مچلنے لگا۔ دس شعری مجموعوں جو جنم دیا۔ ٭[یہ تعداد بھی تقریباً تیرہ یا چودہ تک پہنچ چکی ہے ۔ مدیر] ایک درجن کتابوں کی تدوین کی، اسی قدر تحقیقی تصانیف کی تزئین کی، چودہ تراجم کیے ، ہر کتاب پر انعامات لیے ۔
انھوں نے ’’یم بہ یم‘‘ ، ’’پردۂ سخن‘‘ اٹھایا، ’’طلسم حروف‘‘ سے ص ’’دیپک راگ‘‘ گایا، ’’کھل جا سم سم‘‘ سے ’’دروازہ ٹٹولا، ’’تیکھی غزلوں ‘‘ کا قفل کھولا۔ ’’پانی کی زبان‘‘ کو ’’عکس ریز‘‘ کیا، صریر خامہ‘‘ کو اور تیز کیا۔’’دو غنڈوں سے ‘‘ انتقام کیا، اینٹ کا جواب قلم سے دیا۔ جذبہ فرض شناسی سے کام لیا، احترام کے ساتھ استاد کا نام لیا۔ شاد کی غزلوں سے پردہ اٹھایا، ’’ایک تھا شاعر‘‘ سے دنیا کو متعارف کرایا۔کہیں ان کے کلیات چھپوائے ، کہیں مکاتیب منظر عام پر لائے ۔ نثر و غزل کی داد پائی، ہر شعر میں شوخیِ تحریر پائی، گجراتی ڈراموں کی سفارش کی، اڑیا افسانوں پر کرم کی بارش کی، نئی ناول نگاری اختیار کی، جاسوسی ناولوں کی بھر مار کی۔ ’’چوروں کے قاتل‘‘ کو ’’پیلی کوٹھی‘‘ میں پکڑا۔ ’’بین الاقوامی لٹیرے ‘‘ کو ’’تارے عنکبوت‘‘ سے جکڑا۔ ’’شرلاک ہومز‘‘ کو ہندوستان بلایا، ’’پر اسرار قتل‘‘ کا پتہ لگایا، دنیائے صحافت میں نام پایا۔ ’’نئے چراغ‘‘ کا اجالا پھیلایا، غرضیکہ وہ ہر صنف کے کوچہ گرد ہیں ، میدان علم و ادب کو مرد ہیں ۔ انھیں نثر و نظم پر یکساں قدرت ہے ان کی ہر تحریر میں ندرت ہے ، ان کی حیات و شخصیت پر تحقیقی کام ہو چکا ہے ، ان کی ادبی خدمات کا نام ہو چکا ہے ۔ وہ خود کئی اساتذہ کو ڈاکٹر بنا چکے ہیں ، پی ایچ ڈی کی ڈگری سے سجا چکے ہیں ۔
وہ انجمن اساتذہ اردو کے نائب صدر ہیں ، جامعات ہند کے لیے قابل قدر ہیں ، استاد کی حیثیت سے مقبول ہیں ، گلدستہ اردو کا پھول ہیں ۔ طلبہ کو بے پناہ عزیز ہیں ، اساتذہ کے لیے بیش قیمت چیز ہیں ۔ انھیں اپنی حیثیت پر غرور و ناز نہیں ، مصنف ہونا ان کے لیے طرہ امتیاز نہیں ۔ وہ بڑی سادھی سے رہتے ہیں اس لیے خود کہتے ہیں
یہ شہرت کا پرچم، یہ عظمت کا تاج
مظفرؔ یہ علت نہیں پالتے
٭٭٭٭٭٭٭٭