صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اخبار کی کہانی

غلام حیدر


ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

بات -پیغام-خبر

ہماری دنیا ترقی کی سیڑھیاں طے کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ ترقی سائنس کے میدان میں بھی ہوئی ہے اور ہمارے رہن سہن اور سماجی زندگی میں بھی۔ ایک طرف اگر ہم نے اپنے دو پیروں پر کھڑے ہونے سے شروع کر کے ہوائی جہاز بلکہ ’خلائی جہاز‘ کی مدد سے چاند پر چلنا سیکھ لیا ہے تو دوسری طرف منھ سے نکلنے والی بے اختیار اور بے معنی سی آوازوں سے شروع کر کے لمبی لمبی تقریریں کرنا اور اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے موٹی موٹی کتابیں بھی لکھنا سیکھا ہے۔

سائنس کی دنیا میں جو ترقی ہوئی ہے اس کی خبر تو، آپ چاہے دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں، چند گھنٹے میں آپ کو مل جاتی ہے مگر ان سائنسی ترقیوں کے علاوہ بھی انسان نے کچھ ایسے کام کیے ہیں جن سے اس کی زندگی میں آسانیاں بھی پیدا ہوئی ہیں،  سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی بڑھی ہے اور آہستہ آہستہ وہ تہذیب یافتہ انسان، کہلانے لگا ہے۔ ہم نے زبان سے بول کر اور کاغذ پر لکھ کر اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانا سیکھا ہے، پڑھنا لکھنا سیکھا ہے، فن اور آرٹ سیکھے ہیں، خرید و فروخت شروع کی ہے اور روپیہ پیسہ ایجاد کر کے اپنی زندگی کو آسان کر لیا ہے۔ انہی ترقیوں کو ہم سماجی یا تہذیبی ترقیاں کہہ سکتے ہیں۔

میں نے انہی سماجی ترقیوں کی کہانیوں کواپنی کچھ کتابوں کے ذریعے، بچّوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ میری یہ کتاب ’اخبار کی کہانی‘   ان کہانیوں کی چوتھی کڑی ہے۔ اس سے پہلے میں اس زنجیر میں ’پیسے کی کہانی‘،  ’خط کی کہانی‘ اور ’بینک کی کہانی‘  پیش کر چکا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ یہ سلسلہ بچّوں اور بزرگوں نے کافی پسند بھی کیا ہے۔

اخبار آج ہماری زندگی میں کتنا داخل ہو چکا ہے، اس پر ہم نے مشکل ہی سے غور کیا ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اخبار ہمارے آج کے تہذیب و تمدّن کی بہترین تصویر پیش کر دیتا ہے۔ اخبار ساری دنیا میں روزانہ چھوٹے بڑے واقعات، حادثوں، تبدیلیوں، انقلابوں، ترقیوں، غرض ہماری زندگی کے ہر پہلو کا ایک ایسا مکمل ریکارڈ ہے جسے ہم آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔ اگر ایسا مکمل ریکارڈ ہماری پچھلی تاریخ نے ہمیں دیا ہوتا تو دنیا کے بارے میں ہماری تاریخی معلومات کہیں زیادہ ہوتی۔

میں نے اس کتاب میں یہی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اخبار کا خیال کیسے پیدا ہوا، کب پیدا ہوا، کہاں پیدا ہوا، اس خیال نے کس طرح آہستہ آہستہ ترقی کی اور آج کا اخبار کون کون سی منزلیں طے کرتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ کتاب کا آخری حصّہ اپنے ملک میں اخباروں کی ترقی، جنگِ آزادی میں اخباروں کی کوششوں اور اُردو اخبار کی ترقی سے تعلق رکھتا ہے۔

میں نے اس کتاب کو اخباروں کی ترقی کی تاریخ دہرانے کے مقصد سے تصنیف نہیں کیا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سماج کی اس انوکھی ایجاد کی کچھ بنیادی باتوں کو بچّوں کے سامنے پیش کر دیا جائے تاکہ وہ یہ سمجھ جائیں کہ اخبار جواب ہماری زندی کا ایک لازمی حصّہ بن چکا ہے، اسے ہماری زندگی میں یہ جگہ کیسے مل گئی۔

اگر اس کتاب کو پڑھنے کے بعد بچّوں میں اخبار پڑھنے کا شوق پیدا ہو جائے تو یہ میری پہلی کامیابی ہو گی اور اگر اس قسم کی سماجی ترقیوں کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ان میں خود کھوج اور تحقیق کرنے کی لگن پیدا ہو جائے تو میں مصنّف کی حیثیت سے خود کو بہت خوش نصیب سمجھوں گا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول